نقیب محسود کا جرم ثابت
Reading Time: 2 minutesپاکستان کے ساحلی شہر کراچی میں انسانوں کو ہفتہ وار بنیادوں پر شکار کرنے والے ‘ریاستی درندے’ کے نام سے مشہور ہو چکے ہیں مگر مارے جانے والوں کا جرم ثابت کرنا تو درکنار الزام بھی نہیں بتایا جاتا _ حالیہ واقعہ میں بارہ جنوری کو جعلی پولیس مقابلے میں قتل کیے گئے جوانوں کی نعشیں چھ دن بعد سرد خانوں سے لواحقین کے حوالے کی گئی ہیں، جن میں سے ایک قبائلی جوان نقیب محسود کی ہے جس کی تصاویر نے سوشل میڈیا پر پولیس اور انسداد دہشت گردی کے محکمے سی ٹی ڈی کے خلاف نفرت کا الاؤ دہکا دیا ہے _
ذرائع کے مطابق کراچی میں چند روز قبل غائب ہونے والے جوان نقیب محسود کی لاش مل گئی ہے ۔ نقیب محسود کے کزن نور رحمان نے بتایا ہے کہ نقیب محسود کوانسداد دہشت گردی پولیس کے اہلکاروں نے تین جنوری کو 3 بجے سہراب گوٹھ چپل گارڈن گل شیام آغاہوٹل سےاٹھایا تھا۔ نقیب محسود کا اصل نام نسیم اللہ محسود ہے اور وی 2008 سے کراچی میں محنت مزدوری کر رہا تھا ۔ نقیب اپنے ماموں کے ساتھ اسٹیل ملز میں لوڈنگ کا کام کرتا رہا تھا۔ نقیب کے کزن کا کہنا تھا کہ کل انہیں اطلاع ملی کہ نقیب محسود کو 12 جنوری کو لطیف ٹاون میں مبینہ جعلی مقابلے میں مار دیا گیا ہے۔ نور رحمان کے مطابق ان کے خاندان والے نقیب محسود کی جسد خاکی کی تلاش میں سرگردان تھے ۔
مبینہ پولیس مقابلے کے پانچ دن بعد نقیب محسود کے بہنوئی ڈاکٹر مبارک شاہ چھیپا سنٹر کے سامنے سارا دن لاش وصول کرنے کے لیے انتظار کرتے رہے ۔ ڈاکٹر مبارک نے کہا کہ لاش وصول کرنے کے بعد تمام تفصیلات سے میڈیا کو اگاہ کیا جائے گا ۔
نور رحمان کے مطابق نقیب محسود کسی بھی دہشتگرد کارروائی میں ملوث نہیں تھا. آپریشن راہ نجات کے بعد نقیب اپنے آبائی علاقے جنوبی وزیرستان کے تحصیل مکین گاؤں رزمک سے خاندان سمیت کراچی منتقل ہوا تھا. نقیب کے تین بچے ہیں جن میں نو سالہ نائلہ , سات سالہ علینہ اور دو سال کا بیٹا عاطف شامل ہیں.
نقیب محسود گزشتہ آٹھ سالوں سے مکہ ملز اور بلال ملز کراچی میں مزدوری کر رہا تھا ۔
رشتہ داروں کے مطابق نقیب سہراب گوٹھ میں کپڑے کا کاروبار شروع کرنے کے لیے دکان کی تیاری میں لگا ہوا تھا کہ اس دوران اسے سہراب گوٹھ گل شیر آغا ہوٹل سے اٹھا لیا گیا ۔
نور رحمان کے مطابق پولیس نے ابھی تک یہ نہیں بتایا کہ نقیب محسود کو کس جرم میں گرفتار کر کے مبینہ جعلی مقابلے میں مارا گیا ۔ نقیب کو ڈیرہ اسماعیل خان میں تدفین کے لئے لے جا یاجائے گا ۔
اس واقعے کے خلاف ملک بھر میں سوشل میڈیا پر جسٹس فار نقیب محسود ہیش ٹیگ کے ساتھ مہم کا آغاز کیا گیا ہے۔ ملک بھر میں ہر طبقے کے افراد نے نقیب محسود کے ماورائے عدالت قتل کی شدید مذمت کرتے ہوئے کراچی پولیس کے جعلی مقابلوں کے لیے مشہور افسر راؤ انوار کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے _ قبائلی عوام نے وزیراعظم، سندھ حکومت اور چیف جسٹس سے نقیب محسود قتل کا نوٹس لے کر انصاف فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
سوشل میڈیا پر سینکڑوں قبائلیوں نے لکھا ہے کہ نقیب محسود کا جرم ثابت ہو گیا اور وہ یہ ہے کہ اس کا تعلق قبائلی علاقے سے تھا اور وہ کراچی میں رہنے کا خواہش مند تھا _