جج اور بیوی کو ایک سال قید
Reading Time: 2 minutesاسلام آباد ہائی کورٹ نے طیبہ تشدد کیس میں جج راجہ خرم علی خان اور ان کی اہلیہ کو ایک سال قید کی سزا سنا دی ہے، راجہ خرم علی خان اور ماہین ظفر کو 50 پچاس ہزار جرمانہ بھی ادا کرنا پڑے گا _
خرم علی اور ان کی اہلیہ نے ضمانت کی درخواست دائر کردی ہے، جس کی سماعت آج ہی ہوگی
گھریلو ملازمہ طیبہ پر تشدد کے مقدمے کا فیصلہ جسٹس عامر فاروق سنایا، عدالت نے ملزمہ ماہین ظفر اور راجہ خرم علی خان کو بھی طلب کر رکھا تھا
حتمی دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے 27مارچ کو فیصلہ محفوظ کیا تھا، گھریلو ملازمہ طیبہ پر تشدد کا واقعہ 27 دسمبر 2016 میں سامنے آیا _
معاملہ میڈیا پر آیا تو پولیس نے 29 دسمبر کو سابق جج راجہ خرم علی خان کے گھر سے طیبہ کو تحویل میں لے کر کارروائی شروع کی، دونوں ملزمان کیخلاف تھانہ آئی نائن میں مقدمہ درج کیا گیا
3جنوری 2017کو طیبہ کے والدین نے راجہ خرم اور اسکی اہلیہ کو معاف کر دیا، راضی نامے کی خبر نشر ہونے پر اگلے روز چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس ثاقب نثار نے معاملے کا از خود نوٹس لیا
سپریم کورٹ کے حکم پر پولیس نے 8جنوری 2017 کو طیبہ کو اسلام آباد کے مضافاتی علاقے سے بازیاب کرا کے پیش کیا، عدالتی حکم پر 12جنوری 2017کو راجہ خرم علی خان کو کام سے روک دیا گیا
چیف جسٹس آف پاکستان نے مقدمے کا ٹرائل اسلام آباد ہائیکورٹ کو بھجوایا
10فروری کو ایڈیشنل سیشن جج راجہ آصف علی نے ملزمان کی عبوری ضمانت کی توثیق کی، اسلام آباد ہائیکورٹ نے 16مئی 2017 کو ملزمان پر فرد جرم عائد کیا
مقدمے میں مجموعی طور پر 19 گواہوں کے بیانات قلمبند کیے گئے، گواہوں میں گیارہ سرکاری جبکہ طیبہ کے والدین سمیت 8 غیر سرکاری افرادشامل تھے