پاکستان24 متفرق خبریں

ریاض ٹھیکیدار کو شامل تفتیش کریں، ہائی کورٹ

اپریل 17, 2018 3 min

ریاض ٹھیکیدار کو شامل تفتیش کریں، ہائی کورٹ

Reading Time: 3 minutes

بحریہ ٹائون کے لیے زمین پر قبضے کے کیس میں عدالت نے ریاض ٹھیکے دار کو شامل تفتیش کرنے کا حکم دیا ہے ۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے  مذکورہ کیس میں ریاض ٹھیکےدارکے خلاف مقدمہ درج ہونے کے باوجود غیرقانونی تحفظ دینے والے پولیس افسران کے خلاف بھی آئی جی اسلام آباد کو محکمانہ کارروائی کرنے کی ہدایت کی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اخترکیانی نے ریاض ٹھیکے دار کے متاثرہ نثار احمد افضال کی درخواست پر سماعت کی ۔ ملک ریاض پرابتدائی تفتیش میں ثابت ہوا ہے کہ درخواست گزار  کی 506 کنال اراضی پر اس نے قبضہ کیا_ قبل ازیں ایس پی انوسٹی گیشن اسلام آباد پولیس ذیشان حیدر نے ابتدائی تفتیش رپورٹ میں درخواست گزار نثاراحمد افضال کی 506 کنال ملکیتی اراضی پر ریاض ٹھیکے دار کے قبضہ ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے ریاض ٹھیکے دار کو شامل تفتیش کرنے کی سفارش کی تھی، تاہم ریاض ٹھیکے دار اسلام آباد پولیس کے افسران کی ملی بھگت کے سبب پولیس کے سامنے پیش ہوا اور نہ ہی پولیس نے ریاض ٹھیکے دارکے خلاف ابتدائی چالان عدالت میں پیش کیا۔

متاثرہ شخص نثاراحمد افضال نے 506 کنال اراضی پر قبضے کے بعد 8 اگست 2016 کوتھانہ نیلور میں ریاض ٹھیکےدار کے خلاف ایڈیشنل سیشن جج کے حکم پر ایف آئی آر درج کرائی، تاہم ابتدائی تفتیش کے نام پر پولیس تاخیری حربے استعمال کرتی رہی ۔ متاثرہ شخص کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے 26 جولائی 2017 کو بھی تفتیش مکمل کرنے کا حکم جاری کیا، تاہم تفتیشی افسر ایس پی ذیشان حیدرنے 7 مارچ 2018 کو عدالت میں پیش ہو کر متنازعہ اراضی کی حدبندی کی دوبارہ جانچ پڑتال کے لیے وقت مانگا۔

بعدازاں جب ایس پی ذیشان حیدرکی جانب سے 14 صفحات پرمشتمل رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی تواس میں واضح طور پر کہا گیا کہ‘‘ 506 کنال اراضی نثاراحمد افضال کی ملکیت تھی جس پر بحریہ ٹائون نے ناجائز و زبردستی قبضہ کیا۔ بعدازاں مدعی مقدمہ کو ڈرا دھمکا اور خوف دلا کر زمین کو سستے داموں فروخت کرنے پر مجبور کیا گیا اور 2 کروڑ دینے کے بعد کوئی رقم ادا نہ کرکے معاہدے کی خلاف ورزی کی کیونکہ معاہدہ کی روح سے بحریہ ٹائون نے شیڈول کے مطابق بقیہ رقم ادا کرنی تھی۔

بعدازاں نثاراحمد افضال پابند تھا کہ 506 کنال اراضی بحریہ انتظامیہ کے حوالے کرتا مگررقم کی عدم ادائیگی کی وجہ سے معاہدہ کی تکمیل نہ ہوسکی’’۔ پولیس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ‘‘اگرچہ اس مقدمے میں کچھ پہلو سول نوعیت کے ہیں تاہم درخواستگزارکوڈرانا دھمکانا وغیر قابل دست اندازی پولیس جرائم ہیں لہذا مقدمہ کوقابل اخراج نہ قراردیا جائے، دونوں فریقین کی موجودگی میں زمین کی دوبارہ نشاندہی محکمہ مال سے کروانے کے ساتھ ساتھ مرکزی ملزمان ملک ریاض اورعلی ریاض کوشامل تفتیش کیا جائے’’

عدالت نے کہا کہ پولیس نے 10 اکتوبر2017 کوتفتیش مکمل کرلی گئی مگراس تفتیش میں ریاض ٹھیکےداراوربحریہ ٹائون انتظامیہ پولیس کے متعدد نوٹسزکے باوجود شامل تفتیش نہ ہوئے۔ عدالت نے اسلام آباد پولیس افسران سمیت ایس ایچ او تھانہ نیلور24 گھنٹوں میں ریاض ٹھیکےدارکے خلاف پولیس چالان پیش کرنے اور چودہ روز میں تفتیش مکمل کرنے کا حکم دیا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے قراردیا ہے کہ چالان مقامی عدالت میں پیش کرنے سے متعلق پہلے عدالتی احکامات کو نظرانداز کرکے قانون کی خلاف ورزی کی اس لیے آئی جی اسلام آباد ملک ریاض کے خلاف چالان پیش کرنے میں تاخیری حربے استعمال کرنے والے پولیس افسران کے خلاف بھی محکمانہ کاروائی عمل میں لائیں.

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے