نااہل پولیس افسر کی سخت سرزنش
Reading Time: 2 minutesاسلام آباد ہائی کورٹ نے وزارت داخلہ کو ہدایت کی ہے کہ امریکی سفارت کار کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرنے کے بارے میں ایک ہفتے میں فیصلہ کرے ۔ سفارت کار نے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کر کے دو موٹر سائیکل سواروں کو کچل دیا تھا ۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے پولیس اور حادثے میں مرنے والے نوجوان عتیق بیگ کے والد کی جانب سے کرنل جوزف کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی درخواست کی سماعت کی ۔ وزارت داخلہ کی طرف سے کوئی بھی نمائندہ عدالت میں پیش نہیں ہوا جس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے جج نے کہا کہ ایک پاکستانی مارا گیا ہے لیکن متعلقہ حکام قانون کے مطابق بھی کارروائی نہیں کر رہے ۔
جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انتظامیہ کا کام بھی اب عدلیہ کو ہی کرنا پڑے گا ۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کسی بھی شخص کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے بارے میں ایک کمیٹی بنی ہوئی ہے جس پر جج نے ریمارکس دیے کہ کمیٹی کمیٹی نہ کھیلیں اس طرح تو معاملہ کبھی بھی حل نہیں ہو گا ۔
جسٹس عامر فاروق نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو حکم دیا کہ وہ یہ معاملہ ترجیحی بنیادوں پر کمیٹی کو بھجوائیں اور وزارت داخلہ ملزم کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں فیصلہ کرے ۔ واقعے کی پولیس رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی، جس میں کہا گیا تھا کہ ملزم کو شامل تفتیش کرنا تصور کیا جائے جس پر جسٹس عامر فاروق نے تھانہ کوہسار کے ایس ایچ او خالد اعوان سے استفسار کیا کہ شامل تفتیش تصور کرنے کا کیا مطلب ہے؟ جس کا پولیس افسر کوئی جواب نہ دے سکے ۔
بینچ کے سربراہ نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ اُنھوں نے امریکی سفارت کار ملزم جوزف کا بیان اردو میں کیوں لکھا؟ جس پر پولیس افسر کا کہنا تھا کہ ملزم انگریزی میں بات کر رہا تھا تاہم اُنھوں نے اسے اردو میں تحریر کیا ۔ جسٹس عامر فاروق نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ اگر کل ملزم اس بیان سے مکر جائے کہ اسے تو اردو نہیں آتی تو پھر اس مقدمے کا کیا بنے گا؟
جج نے ایس ایچ او خالد اعوان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ملزم گورا اور پھر وہ امریکی، اس پر تو پولیس اہلکاروں کے ہاتھ پاوں پھول گئے ہوں گے ۔ جسٹس عامر فاروق نے وقوعہ کے روز ملزم کا میڈیکل چیک اپ نہ کروانے اور قانونی کارروائی مکمل کرنے سے پہلے ہی امریکی سفارت کار کو جانے کی اجازت دینے پر بھی پولیس افسر کی سرزنش کی ۔ جج نے کہا کہ امریکی ہے تو اپنے ملک میں ہوگا اور سفارت کار ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ہمارے بندے مارتا پھرے ۔
جسٹس عامر فاروق نے ایس ایچ او خالد اعوان سے کہا کہ کبھی پاکستانی بن کے بھی سوچیں، ہر کیس کو ادھر ادھر نہ کیا کریں ۔ جج نے کہا کہ قانون اگر سفارت کار کو تحفظ فراہم کرتا ہے تو دوسرے شہریوں کو بھی تحفظ حاصل ہے ۔ عدالت نے درخواستوں کی سماعت 24 اپریل تک ملتوی کر دی ہے ۔
واضح رہے کہ سات اپریل کو اسلام آباد کے دامنِ کوہ چوک میں امریکی سفارت خانے کے فوجی اتاشی کرنل جوزف نے ٹریفک اشارہ توڑ کر طالب علم کی موٹرسائیکل کو ٹکر ماری تھی جس کے نتیجے میں وہ ہلاک اور اس کا ساتھی شدید زخمی ہو گیا تھا ۔