چکوال سیمنٹ فیکٹریوں کا اربوں کا پانی
Reading Time: 5 minutesسپریم کورٹ نے کٹاس راج مندر تالاب ازخود نوٹس کیس میں چکوال کی سیمنٹ فیکٹریوں کے پانی استعمال پر سوال اٹھایا ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ان افسران کو سامنے لائیں جنہوں نے پانی کے استعمال کی اجازت دی، اربوں روپے کا پانی استعمال کیا گیا، کیوں نہ معاملہ نیب کوبھیج دیں ۔
پاکستان ۲۴ کے مطابق چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی عدالتی بنچ نے سیمنٹ فیکٹری سے زیر زمین پانی کے استعمال کے اجازت نامے طلب کر لئے، عدالت نے اجازت دینے والے افسران کو بھی نوٹس جاری کئے ۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے پوچھا کہ سیمنٹ فیکڑیوں نے پانی کے مسئلے کا کیا حل ڈھونڈا ہے؟ کیا نجی سیمنٹ فیکٹری کے سی ای او تشریف لائے ہیں؟ ۔ نجی سیمنٹ فیکڑی کے سی ای او عدالت میں پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے کہا کہ سیمنٹ فیکٹری کی وجہ سے کٹاس راج مندر کا پانی خشک ہو گیا، فیکٹری کو زیر زمین پانی کے وسائل کا کیا حق ہے؟
پاکستان ۲۴ کے مطابق سیمنٹ فیکٹری کے چیف ایگزیکٹو نے جواب دیا کہ یہ حق پنجاب حکومت نے ہمیں دیا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سیمنٹ فیکڑیوں کے مالکان کو علاقے کے مسائل بھی حل کرنا چاہئیں، یہ فیکڑیوں کی کارپوریٹ ذمہ داری ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بنیادی حقوق کا سوال ہے، سیمنٹ فیکٹری سے آخری تین سال پانی کے استعمال کی قیمت وصول کریں گے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کٹاس راج مندر کا تالاب سیمنٹ فیکٹریوں کی وجہ سے خشک ہوگیا، سیمنٹ فیکٹری نے کسی قسم کا احساس نہیں کیا ۔
چیف جسٹس نے بیسٹ وے فیکٹری کے وکیل مخدوم علی خان سے کہا کہ مسکراہٹ کے ساتھ عدالت کے سامنے کھڑے ہوں، اگرچہ ابھی تک کیس آپ کے حق میں نہیں گیا ۔ پاکستان ۲۴ کے مطابق مخدوم علی خان نے کہا کہ مجھے عدالت پر مکمل اعتماد اور ایمان ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو ہو نہ ہو ہمیں خود پر ایمان اور اعتماد ہے ۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ میرا جس دن عدالت پر اعتماد نہ رہا پیش نہیں ہوں گا ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ٹیوب ویل فیکٹری نے نہیں بند کئے، عدالتی حکم پر ہوئے، کیا فیکٹری کا ٹیوب ویل لگانا قانونی تھا، فیکٹری کے پاس زیر زمین قدرتی وسائل کو استعمال کرنے کا کیا اختیار تھا ۔ پاکستان ۲۴ کے مطابق وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ بورنگ کے لئے کسی کی اجازت درکار نہیں ہوتی، فیکٹری نے ماحولیاتی ایجنسی سے ٹیوب ویل کی اجازت لی، ماحولیاتی ایجنسی کی جانب سے مانیٹرنگ کی جاتی ہے ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کس مانٹیرنگ کی بات کر رہے ہیں، فیکٹری نے اپنی پیداوار میں توسیع کر لی ۔ وکیل نے کہا کہ فیکٹری میں توسیع کے لئے حکومت پنجاب سے اجازت لی گئی ۔ پاکستان ۲۴ کے مطابق چیف جسٹس نے پوچھا کہ ماحولیاتی ایجنسی ٹیوب ویل لگانے کی اجازت کیسے دے سکتی یے، کس قانون کے تحت ماحولیاتی ایجنسی نے ٹیوب ویل لگانے کی اجازت دی، یہی بدمعاشی اور بددیانتی ہو رہی ہے، کیوں نہ اجازت دینے والوں کو سزادیں ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں بتا دیں آپ کتنے دنوں میں متبادل پانی کا بندوبست کر لیں گے ۔ وکیل نے کہا کہ متبادل پانی کا بندوبست کر رہے ہیں، چھ کی جگہ دو ٹیوب ویل استعمال کر رہے ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیوں نہ ماحولیاتی ایجنسی کا اجازت نامہ واپس لے لیں، سیمنٹ انڈسٹری پاکستان کے لیے بڑی اہم ہے، سی پیک کے لیے بھی سیمنٹ کی ضرورت ہو گی، فیکٹری کے سیٹھ صاحبان زرا ان معاملات پر بھی غور کریں، سیٹھ اپنی کارپوریٹ ذمہ داری پر بھی غور کریں، چیف جسٹس نے کہا کہ اس ملک سے صرف لینا نہیں بلکہ ملک کو کچھ دینا بھی ہے،
چیف جسٹس نے ہوچھا کہ فیکٹری اپنا پانی دریا سے لے کر کب آئے گی، وکیل نے کہا کہ پائپ لائن لگانے کے لئے 2 سال کا عرصہ لگے گا ۔ پاکستان ۲۴ کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے رات ایک پیغام آیا ہے، پیغام تھا فیکٹری میری ریٹائرمنٹ کا انتظار کر رہی ہے، ہوسکتا ہے کسی نے مذاق کیا ہو ۔ وکیل نے کہا کہ یہ پیغام ہماری طرف سے نہیں ہو سکتا، اس وقت قدرتی چشمہ سے پانی کی ضرورت پوری کر رہے ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قدرتی چشمے پر کسی کا حق نہیں، قدرتی چشمے کا پانی استعمال کرنا غیر قانونی اقدام ہے ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ لگتا ہے علاقے کے لئے کچھ کرنے کا فیکٹری کا ارادہ نہیں، کیس کو میرٹ پر دیکھ لیتے ہیں اور فیصلہ کر دیتے ہیں، ہمارا مقصد معاملے کا حل نکالنا ہے ۔ پاکستان ۲۴ کے مطابق وکیل نے کہا کہ مسئلے کے حل کے لئے کسی بھی کمیٹی کے ساتھ بیٹھنے کو تیار ہیں، دریا سے پانی لانے کے لیے پائپ لائین لگانے پر دو ارب کی لاگت آئے گی ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سی پیک نہ ہوتا تو ایک لمحے میں فیکٹری بند کر دیتے، فیکٹری مالکان ہماری پوزیشن کا استحصال کر رہے ہیں ۔
جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ پوٹھوہار خطے میں ایسی جگہیں موجود ہیں جہاں چھوٹے ڈیم بنائے جا سکتے ہیں ۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب عاصمہ حامد نے کہا کہ فیکٹری عرصے سے زیر زمین پانی استعمال کر رہی ہے، قانون کے تحت ماحولیاتی ایجنسی کو ٹیوب ویل اور زیر زمین پانی استعمال کرنے کی اجازت دینے کا اختیار نہیں، پاکستان ۲۴ کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ ماحولیاتی ایجنسی کے جن افسروں نے اجازت دی انہیں چھوڑوں گا، کس طرح افسروں نے اربوں روپے کے پانی کے استعمال کی اجازت دے دی ۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب عاصمہ حامد نے بتایا کہ ہر سال سات ارب روپے کا پانی فیکٹری استعمال کرتی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ جب سے فیکٹری لگی ہے حساب کریں تو اربوں کھربوں کا پانی بن جاتا ہے ۔ پاکستان ۲۴ کے مطابق جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ فیکٹری اتنا پانی استعمال کرتی ہے اس کا اثر زیرزمین پانی کے لیول پر ہوگا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ صرف کٹاس راج تالاب کے پانی کا معاملہ نہیں، حکومت پنجاب قانون کے مطابق اپنا اختیار استعمال کرے ۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پورے پاکستان میں ایک پیسہ دییے بغیر زیر زمین پانی استعمال ہوتا ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فیکٹری مالکان کوصرف پیسے کمانے کا رومانس یے، پانی کی جوحالت ہے آئندہ آنے والی نسلیں معاف نہیں کریں گی، ڈیمز بنا کر پانی کو محفوظ کرنے کے لئے کچھ نہیں کرنا، 50 فٹ پانی کا لیول اب سینکڑوں فٹ نیچے تک پہنچ چکا ہے ۔
پاکستان ۲۴ کے مطابق جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ پائپ لائن کے لئے 2 ارب لگا رہے ہیں، زیرزمین پانی کے لئے پیسے کیوں نہیں دیتے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کے پاس پیسہ جانے سے علاقہ مکینوں کے مسائل کیسے حل ہوں گے ۔ فیکٹری کے سی ای او نے کہا کہ 14 کلومیٹر دور سے پانی لے کر آتے ہیں، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب غلط بیانی کر رہی ہیں، زمین خرید کر ٹیوب ویل لگایا ہوا ہے ۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب عاصمہ حامد نے بتایا کہ سیمنٹ فیکٹری 31 بلین لیٹر سالانہ پانی کا استعمال کرتی ہے۔ پاکستان ۲۴ کے مطابق جسٹس عمرعطابندیال نے کہا کہ سیمنٹ فیکٹری سالوں سے پانی استعمال کر رہی ہے، فیکٹری مالکان حکومت کے ساتھ مل کرمعاملے کاحل نکالیں، حل نہ نکلا تو فیکٹری بند کرنے کا آپشن بھی ہے ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ فیکٹری مالکان کو آج معاملہ کی نزاکت کا احساس ہوا ہوگا، اس سیکٹر کو ریگولر نہیں کیا گیا تاکہ مزے اڑائے جائیں ۔ سی ای او نے کہا کہ سیمنٹ انڈسٹری ریگولر ہے، اداروں سے اجازت لے کر پانی استعمال کیا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ لے آئیں انھیں جنھوں نے پانی کے استعمال کی اجازت دی، کیوں نہ معاملہ نیب کوبھیج دیں، اربوں کاپانی استعمال کیاگیا ۔
پاکستان ۲۴ کے مطابق درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ فیکٹری مالکان نے ملی بھگت سے پانی کے استعمال کی اجازت دی، علاقے میں پانی کی سظح گر گئی، علاقہ مکینوں کا کیا قصور ہے، ابھی تک اجازت ناموں کا ریکارڈ نہیں پیش کیا گیا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہو سکتا ہے وہ ریکارڈ جل گیا ہو، ہو سکتا ہے ریکارڈ سیلاب میں بہہ گیا ہو، چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کے نوٹس لینے پر حکومت پنجاب بھی جاگ گئی ۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ فیکٹری نے زیر زمین پانی کے استعمال کی اجازت 2004 میں لی ۔ عدالت نے سماعت کل تک ملتوی کرتے ہوئے پانی کے استعمال کرنے کی اجازت دینے والوں کو نوٹس جاری کر دیا ہے ۔