سندھ میں تیزاب پھینکنا دہشتگردی نہیں
Reading Time: 2 minutesسپریم کورٹ میں تیزاب گردی کا شکار سیکنڈ ائیر کی طالبہ راحیلہ رحیم نے مقدمہ انسداد دہشتگردی کی عدالت میں چلانے کی استدعا کی ہے جبکہ جسٹس فیصل عرب نے کہا ہے کہ سندھ کے قانون میں تیزاب پھینکنے کا کیس دہشت گردی کی عدالت میں چلانے کی اجازت نہیں ۔
جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے تیزاب گردی کی شکار سیکنڈ ائیر کی طالبہ راحیلہ رحیم کی درخواست کی سماعت کی، دوران سماعت درخواست گزار نے کیس انسداد دہشتگردی کی عدالت میں چلانے کی استدعا کی جس پر جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیئے سندھ کے قانون میں نہیں ہے کہ تیزاب پھینکنے کا کیس دہشت گردی کی عدالت میں چلایا جائے، انہوں نے کہا قانون بنانا اسمبلی کا کام ہے ،ہم قانون کو تبدیل نہیں کر سکتے،طالبہ نے عدالت کو بتایا کہ شادی نا کرنے پہ کراچی میں عید کی رات تیزاب پھینک کر میرا چہرہ جلایا گیا، میں تعلیم حاصل کر رہی تھی میرا قصور کیا تھا ؟جسٹس فیصل عرب نے کہا ہم نہیں چاہتے آپ عدالتوں کے چکر لگائیں، پنجاب کے قانون میں ترمیم ہے کہ تیزاب پھینکنے پہ کیس دہشت گردی کی عدالت میں چلایا جائے جبکہ سندھ میں قانون سازی نہیں کہ تیزاب پھینکنے پر کیس دہشت گردی کی عدالت میں چلایا جائے، طالبہ نے عدالت کو بتایا کہ تیزاب پھینکنے والا ملزم ذیشان سندھ پولیس میں کانسٹیبل ہے اور اس کو سندھ پولیس کی جانب سے تنخواہ بھی دی جا رہی ہے، شادی سے انکار کرنے پہ میرا چہرہ تیزاب سے جلایا گیا، میں سیکینڈ ائیر کی طالب علم تھی جب مجھے تیزاب گردی کا نشانہ بنایا گیا، متاثرہ لکڑکی نے عدالت کو بتایا میرا چہرہ جل جانے کی وجہ سے مجھے اپنی تعلیم کو بھی خیر آباد کہنا پڑا، عدالت نے ایڈووکیٹ دل محمد علیزئی کو کیس میں عدالتی معاون مقرر کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی ہے ۔