چیف جسٹس اور پرویز رشید میں مکالمہ
Reading Time: 5 minutesسپریم کورٹ نے عطا الحق کے بطور چیئرمین پی ٹی وی تقرر کیس میں سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید اور قاسمی کو وکلا کے دلائل سننے اور اٹارنی جنرل کا مؤقف سامنے آنے کے بعد اب اسحاق ڈار اور سابق سیکرٹری خزانہ کو ۹ جولائی کو طلب کر کے وضاحت پیش کرنے کیلئے کہا ہے ۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ عطاء الحق قاسمی کو پی ٹی وی چلانے کا کوئی انتظامی تجربہ نہیں تھا، یہ بات بھی گردش کر رہی ہے کہ عطاء الحق قاسمی کو نواز شریف کے حق میں مضامین لکھنے پر تعینات کیا گیا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عطاء الحق قاسمی کو ہی پی ٹی وی کیلئے پوری دنیا میں کیوں چنا گیا ۔
پرویز رشید کے وکیل نے کہا کہ عطاالحق قاسمی کی طرز پر تنخواہوں کی ادائیگی کی ماضی میں بھی مثالیں ہیں ۔ پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہم ماضی کی مثالوں پر غیر قانونی اقدام کی اجازت نہیں دے سکتے ۔ وکیل نے کہا کہ عطاالحق قاسمی کو بہت سے اعزازات سے نوازا گیا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جب بھی ان کی حکومت آئی عطاء الحق قاسمی کو نوازا گیا، ریکارڈ دیکھ لیں، عطاء الحق قاسمی کو ہلال امتیاز کا اعزاز کس دور میں ملا، عطاالحق قاسمی کو تمغے کس دور میں ملے، دیکھ لیں، چیف جسٹس نے کہا کہ
ہم عطاء الحق قاسمی کی حد تک کیس کا فیصلہ محفوظ کریں گے، اسحاق ڈار اور سابق سیکریٹری خزانہ کا کیس کی سماعت پیر کو ہوگی ۔ عدالت نے پرویز رشید کو طلب کر کے سماعت میں وقفہ کیا ۔ وقفے کے بعد وکیل نے کہا کہ تنخواہ کی منظوری وزیراعظم نے دی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بتائیں وہ سمری کہاں ہے ۔
وکیل نےکہا کہ قاسمی کی پندرہ لاکھ تنخواہ کی سمری فنانس ڈویژن کے ذریعے وزیراعظم کو گئی ۔ پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ آپ درست کہہ رہے ہیں کہ سمری حتمی طور پر وزیراعظم نے منظور کی، پھر جتنی لاقانونیت ہوئی سب اس میں اپنا حصہ ڈالیں، چیف جسٹس نے کہا کہ عطا الحق قاسمی کا تقرر بطور ایم ڈی نہیں تھا تو پھر کیسے وہ ایم ڈی کے برابر مراعات اور تنخواہیں لے سکتے ہیں، ان کی ایسی کیا قابلیت اور معیار تھا کہ تعینات کیا گیا ۔ پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق جسٹس اعجاز نے پوچھا کہ اس شخص کی تعیناتی کس کے کہنے پر ہوئی ۔
پرویز رشید سپریم کورٹ میں پیش ہوئے اور بتایا کہ انہوں نے مشاورت کے بعد قاعدے اور قانون کے مطابق سمری پر دستخط کئے اور فنانس ڈویژن کو بھجوائی ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بطور وزیر اطلاعات پرویز رشید کے اختیارات لامحدود نہیں تھے، چیف جسٹس نے پوچھا کہ پرویز رشید صاحب، آپ کی اپنی کتنی تنخواہ تھی؟ اڑھائی تین لاکھ آپ کی اپنی تنخواہ تھی، یہاں مرسیڈیز گاڑیاں بھی چل رہی تھیں، ایسا کون سا اختیار تھا جو اتنی تنخواہیں دی گئیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عطاء الحق قاسمی ایک ہی وقت میں چیئرمین اور ایم ڈی تھے ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پرویز رشید صاحب آپ ہمارے لیڈر ہیں، لیڈر کو ادراک ہونا چاہئیے کہ یہ قوم کا پیسہ ہے، وہ خود کہتا ہے میں نے میاں صاحب کے حق میں بڑے مضامین لکھے ۔ پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق پرویز رشید نے کہا کہ عطا الحق قاسمی کا تقرر ادارے کی بہتری کے لیے کیا گیا، میں نے تنخواہ کے معاملے پر تمام اداروں سے رہنمائی لی تھی، تنخواہ کی منظوری کیلئے وزارت خزانہ کو لکھا، فنانس ڈویژن چاہتا تو روک سکتا تھا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس بات کا برا نہ مانیے گا، اگر کسی کو کہیں لگانے کی نیت ہو اور اگر کسی ہیڈ کا اشارہ بھی ہو کہ اسی کو لگانا ہے تو پھر کسی ڈویژن کو کیا کہ روک سکے ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس وقت کے وزیر خزانہ اور سیکریٹری خزانہ کو طلب کر لیا ہے، وہاں پر تو اسحاق ڈار صحت مند پھر رہے ہیں، اب ان کو آنا پڑے گا، دیکھتے ہیں کیسے اسحاق ڈار آنے سے گریز کرتے ہیں، اب یہ پیسے واپس کریں، معاملے کی فوجداری نوعیت کی تفتیش نیب کر لے گا ۔ پرویز رشید نے کہا کہ قواعد کو دیکھتے ہوئے تنخواہ دی گئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پھر دو گاڑیاں کس چیز کیلئے؟ مرسڈیز کس بات کیلئے؟ ممبر شپس کس چیز کی؟ ریسٹ ہاؤس میں پتیلیاں، ہانڈیاں بھی لیں، یہ عوام کے پیسے سے ہوا ۔ یہ کون واپس کرے گا، وہ خود کریں گے یا لگانے والے کریں گے ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اربوں روپے کی کمپنی کے چیئرمین لگانے جانے کے لئے کیا وہ اہل تھے؟ کیا یہ نجی ادارہ ہوتا تو لگائے جاتے؟ ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کمپنی پہلے ہی خسارے میں جا رہی تھی ۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا کہ یہ بات درست نہیں کہ چیئرمین کیلئے مراعات نہیں ہوتیں، قاسمی صاحب سے قبل اسلم اظہر اور پرویز رشید 1998-99 میں پی ٹی وی کے چیئرمین رہ چکے ہیں مگر مراعات نہیں لیں، شاہد مسعود نے مراعات لیں مگر وہ چیئرمین کے ساتھ ایم ڈی بھی تھے، چیئرمین کے طور پر کوئی بھی مراعات قواعد کے مطابق نہیں لی جا سکتیں ۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرے لئے یہ انتہائی تکلیف دہ بات ہے کہ قاسمی صاحب جیسی شخصیت سے یہ سب کچھ ہوا، یہ قومی شخصیت ہیں، یہ قومی شرمندگی کا باعث ہے، کسی ائر پورٹ پر اترتے ہیں تو قاسمی صاحب کی کتابیں رکھی ہوتی ہیں، ادب سے وابستہ شخصیات کا معاملہ اگر تفتیش کیلئے نیب کو جاتا ہے تو اس سے تکلیف ہوتی ہے، اگر پہلے مرحلے پر ہی یہ معاملہ مراعات واپس کر کے ختم ہو جائے ۔
پرویز رشید نے کچھ کہنے کی اجازت چاہی تو چیف جسٹس نے کہا کہ دیکھ لیں، اس طرح کے تقرر کر کے اس ملک کے اداروں کا کیا حال کر دیا ہے ۔ پرویز رشید نے کہا کہ عرض ہے کہ جمہوریت میں حکومت اور اپوزیشن سرکار کو چلاتے ہیں، قاسمی صاحب کا تقرر کیا گیا تو اپوزیشن میں اعتزاز احسن، بابر اعوان، فاروق نائیک اور دیگر بڑے بڑے نام تھے جو روزانہ اس عدالت میں پیش بھی ہوتے رہے ہیں اگر غلط ہوتا تو اعتراض کرتے ۔ پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق پرویز رشید نے چیف جسٹس سے کہا کہ کامل علی آغا آپ کے رشتہ دار اور برادری سے ہیں، وہ بھی اپوزیشن میں تھے اور اس وقت سینٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے اطلاعات کے چیئرمین تھے انہوں نے بھی اس تقرر پر کوئی اعتراض نہ کیا ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اپوزیشن کا معاملہ وہ جانیں، ہم نے قانون کو دیکھنا ہے، وہ بہت اچھے رائٹر ہوں گے مگر کیا کمپنی چلانے کے اہل بھی تھے؟
پرویز رشید نے کہا کہ تقرر قانون اور قواعد کے مطابق کیا، سکرٹری نے مجھے سمری دی تو اس سے پوچھا کہ قانون میں اجازت ہے تو اس نے تصدیق کی، اس کے بعد سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے پاس منظوری کیلئے بھیجی گئی، فنانس ڈویژن نے تنخواہ اور مراعات کی منظوری دی، مطمئن ہوں کہ جو کیا قانون اور قواعد کو دیکھ کر کیا ۔ پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق پرویز رشید نے کہا کہ ہارون بخاری اور اسلم اظہر نے بھی بطور چیئرمین تنخواہ اور مراعات لیں، میں نے جو کچھ بھی کیا ماضی میں اختیار کئے گئے طریقہ کار کے مطابق کیا ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ٹھیک ہے ہم نے آپ کو اور آپ کے وکیل کو سن لیا ہے، عطا الحق قاسمی کی وکیل نے بھی دلائل مکمل کر لئے ہیں، تقرر کی حد تک سماعت مکمل کر لی ہے اس پر فیصلہ سنائیں گے، تنخواہ اور مراعات پر 9 جولائی کو اسحاق ڈار اور سابق سیکرٹری خزانہ کو آنے دیں ۔