نیب اپیلوں پر نواز اور مریم کو نوٹس
Reading Time: 2 minutesسپریم کورٹ نے سزاؤں کی معطلی کے فیصلے پر نیب کی دائر کردہ اپیلوں کو ابتدائی سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے نواز شریف اور مریم نواز کو نوٹس جاری کئے ہیں ۔ آئندہ سماعت 6 نومبر کو ہوگی ۔ چیف جسٹس نے کہا ہے کہ کیا ایسی مثال ملتی ہے کہ سزا معطلی کا فیصلہ 43 صفحات پر مشتمل ہو ۔
چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے اپیلوں کی سماعت کی ۔ عدالت کو نیب کے وکیل جہانزیب بھروانہ نے دلائل میں بتایا کہ ہائی کورٹ نے ضمانت کی اپیلوں پر سزا معطلی کا فیصلہ دیتے وقت نیب کے قانون کو مدنظر نہیں رکھا، سپریم کورٹ بھی اپنے فیصلوں میں قرار دے چکی ہے کہ نیب قانون کے تحت صرف مخصوص حالات میں سزا معطل کر کے ضمانت دی جا سکتی ہے ۔ نیب کے وکیل نے کہا کہ قانون کے مطابق جیل کے ہسپتال میں بیماری کا علاج نہ ہونے پر ملزم ضمانت پر رہائی کا حق رکھتا ہے یا ایسے ملزم کو بھی ضمانت پر رہائی مل سکتی ہے جس کا مقدمہ سالوں سال سماعت کیلئے مقرر ہی نہ ہو ۔
نیب کے وکیل کا کہنا تھا کہ ہائیکورٹ نے رہائی کے فیصلے میں ہارڈ شپ مقدمات کی نظیروں کا مکمل جائزہ نہیں لیا، ہائیکورٹ نے ضمانت پر رہائی کی درخواستوں میں مقدمے کے حقائق پر فیصلہ دے دیا ہے ۔ نیب کے وکیل نے کہا کہ ضمانت کی درخواستوں میں مرکزی مقدمے کے حقائق پر بات نہیں کی جاسکتی ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عمومی طور پر ضمانت کی درخواست کا فیصلہ ڈیڑھ یا دو صفحات پر مشتمل ہوتا ہے، نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی ضمانت پر رہائی کا فیصلہ کتنے صفحات پر مشتمل ہے؟ نیب کے وکیل نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے 43 صفحات پر مشتمل فیصلہ دیا ۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا ضمانت پر رہائی کا فیصلہ 43 صفحات پر لکھنے کی کوئی اور عدالتی نظیر ملتی ہے، کہیں سے ڈھونڈ لیں ہوسکتا ہے اتنے طویل فیصلے کی کوئی مثال مل جائے ۔
نیب کے وکیل نے کہا کہ زیادہ سے زیادہ پانچ یا چھ صفحات پر مشتمل فیصلہ ہوتا ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیپٹن صفدر کی سزا بہت کم ہے، کیا ایک سال کی سزا کی معطلی کے خلاف بھی اپیل کی پیروی کریں گے؟ نیب وکیل نے کہا کہ میں اس حوالے سے ہدایت لے کر عدالت کو آگاہ کروں گا ۔ عدالت نے کیپٹن صفدر کے علاوہ دیگر کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت 6 نومبر تک ملتوی کر دی ۔