خواجہ حارث اور جج کا مکالمہ
Reading Time: 3 minutesاسلام آباد کی احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنسز کی سماعت ہو رہی ہے ۔سابق وزیراعظم نوازشریف کی کمرہ عدالت میں موجودگی کے دوران وکیل خواجہ حارث اور جج ارشد ملک کے درمیان مکالمہ ہوا ہے ۔
وکیل خواجہ حارث کے العزیزیہ سٹیل مل ریفرنس میں حتمی دلائل پانچویں روز بھی جاری ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ استغاثہ نے کہا یو اے ای سے آنے والے ایم ایل اے (موچول لیگل اسسٹنس) کا جواب ملزمان کے موقف کو غلط ثابت کرنے کیلئے کافی تھا، اس لئے ایم ایل اے سے پہلے واجد ضیاء کے بیان کا کچھ حصہ پڑھنا چاہتا ہوں، واجد ضیاء نے کہا حسین نواز وضاحت دینے میں ناکام رہے اسلیئے نواز شریف جوابدہ نہیں، واجد ضیاء کا اخز کیا گیا نتیجہ قابل قبول شہادت نہیں ۔
خواجہ حارث نے عدالت میں موقف اختیار کیا ہے کہ جے آئی ٹی نے صرف طارق شفیع ،حسن نواز اور حسین نواز کے بیانات پر انحصار کیا، جے آئی ٹی کے سامنے دیئے گئے بیان یہاں ہمارے خلاف استعمال نہیں کئے جا سکتے، حسن اور حسین نواز اس عدالت کے سامنے پیش ہی نہیں ہوئے، یہ نواز شریف کا ٹرائل ہو رہا ہے حسن اور حسین نواز کا نہیں ۔
خواجہ حارث کے مطابق حسن اور حسین نواز کا کوئی بیان یا دستاویز نواز شریف کیخلاف شواہد کے طور پر استعمال نہیں ہو سکتا، صرف تصدیق شدہ کاپیاں حاصل کر کے عدالت میں پیش کر دینا جرم ثابت نہیں کرتا، ان دستاویزات کو تیار کرنے اور انہیں جے آئی ٹی کو فراہم کرنے والوں کا بھی عدالت میں پیش ہونا ضروری تھا ۔ خواجہ حارث نے کہا کہ طارق شفیع کے بیان حلفی کو بھی ہمارے خلاف استعمال کیا گیا ۔
خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ طارق شفیع بھی اس عدالت میں پیش نہیں ہوئے اس لئے طارق شفیع کا بیان حلفی ہمارے خلاف استعمال نہیں ہو سکتا ۔ جج ارشد ملک نے کہا کہ آپ کا سارا موقف ہی یہ ہے کہ طارق شفیع نے بابا جی کی طرف سے سرمایہ کاری کی، اب آپ کہتے ہیں طارق شفیع کی کوئی چیز استعمال ہی نہیں ہو سکتی، جج نے سوال کیا کہ کیا میں پهر طارق شفیع والے سارے معاملے کو نظر انداز کردوں؟ جج نے کہا کہ آپ کے موقف میں بنیادی انحصار ہی طارق شفیع پر تها ۔
جج ارشد ملک نے وکیل خواجہ حارث سے کہا کہ آپ یوں نہ کہیں یوں بهی ہوسکتا ہے یوں بهی، آپ صاف طور پر کوئی ایک موقف اپنائیں، ماشا اللہ خواجہ صاحب آپ بہت قابل اور تجربہ کار ہیں، اس سٹیج پر پہنچ کر تو کوئی ایک موقف لیں، جج کا کہنا تھا کہ اس طرح کی باتوں سے مجهے مزید کنفیوز نہ کریں، جج نے سوال کیا کہ حسن، حسین ،مریم اور طارق شفیع کی طرف سے پیش کی گئی دستاویزات کو الگ کرلیں تو پیچھے العزیزیہ رہ جاتی ہے، جج ارشد ملک نے کہا کہ آپ العزیزیہ اسٹیل مل کے حوالے سے قانونی نکات پر دلائل دیں ۔
جج ارشد ملک نے کہا کہ آپ کا مقصد مجھے کیس سمجھانا ہے، اس نکتے سے آگے چلیں جو میں سمجھ چکا ہوں ، یہ کہنا کہ یہ ہوسکتا ہے ،وہ کردیں ،تو ایسی صورت حال میں کنفوژن ہو جاتی ہے، آپ ایک بات کریں ، دو دو باتیں نہ کریں، جج نے مثال دیتے ہوئے اپنی پنسل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ فرض کریں کہ سپریم کورٹ کسی کو کہتا ہے کہ اس کی کمپنی کا پتہ کریں، تحقیق کار یہ پتہ کرے گا کہ پینسل اسی کمپنی کی ہے جو اس پر نام درج ہے، دوسری صورت میں تحقیق کار کہے گا کہ پینسل کسی جعلی کمپنی کی ہے ۔
جج ارشد ملک نے کہا کہ یہ کہنا کہ یہ تحقیق کار کی رائے ہے، تو یہی تو اس نے بتانا تھا ۔ جج نے پوچھا کہ کیا قطر اور یو اے ای کے درمیان سفر کرنے کیلئے ویزا درکار نہیں ہوتا ؟ کیا قطر اور یو اے ای کے درمیان سفر کرنا بھی راولپنڈی سے اسلام آباد آنا جانا ہے ؟ وکیل نے جواب دیا کہ ایک زمانہ تھا جب زیادہ چیکنگ نہیں ہوتی تھی، پرانے زمانے میں لوگ امریکہ سے بھی ڈالروں کے بیگ بھر کر لے جاتے تھے، اب تو چیکنگ اتنی سخت ہوگئی ہے کہ پینٹ اور جوتے بھی اترواتے ہیں ۔
وکیل نے کہا کہ واجد ضیاء کو شواہد کے حصول کیلئے بیرون ملک خط و کتابت کا اختیار تھا ، یو اے ای سے آنے والے ایم ایل اے کے جواب کی صداقت مشکوک ہے، یو اے ای دفتر خارجہ، پاکستانی قونصل خانے اور نوٹری پبلک سے ایم ایل اے کے جواب کی تصدیق نہیں کرائی گئی، خواجہ حارث نے بتایا کہ ایم ایل اے کا جواب دفتر خارجہ کے زریعے جے آئی ٹی کو موصول نہیں ہوا، جس ریکارڈ کی بنیاد پر ایم ایل اے کا جواب دیا گیا وہ بھی پیش نہیں کیا گیا ۔
جج نے کہا کہ ایم ایل اے کا جواب جے آئی ٹی کی کارروائی کے دوران آیا تھا ، کیا جے آئی ٹی رپورٹ آنے کے بعد حسین نواز نے یو اے ای سے تصدیق شدہ ریکارڈ حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی ؟ وکیل نے جواب دیا کہ حسین نواز نے ایسا کوئی ریکارڈ حاصل نہیں کیا ، وقت آنے پر سچ سامنے آجائے گا، 1980 کے معاہدے اور مشینری کی منتقلی ثابت کرنے کا بار ہم پر نہیں ہے ۔
سماعت کل تک کیلئے ملتوی کر دی گئی