محکمہ زراعت سے انسدادمنشیات تک
Reading Time: 2 minutesمسلم لیگ نواز کے رکن قومی اسمبلی راناثنااللہ کو”بھاری’مقدار میں منشیات کی ترسیل کے دوران گرفتارکیا گیا اور اب وہ جوڈیشل ریمانڈپرہیں۔ اس میں شک نہیں کہ یہ کارروائی انتقامی اقدامات کاہی حصہ ہے جس کی زدپراس وقت لگ بھگ پوری اپوزیشن ہے۔
مخدوم جاویدہاشمی نے ٹویٹ میں اس معاملے پر دلچسپ تبصرہ کیاہے۔ان کاکہنا تھا کہ جس شخص کوعلم ہوکہ اسے کسی نہ کسی الزام پر گرفتارکیاجانے والاہے، اور وہ 24گھنٹے ٹریکنگ پر بھی ہوتووہ کیوں کرگاڑی میں منشیات لے کرگھومے گا۔ ہاشمی صاحب کاتجزیہ بھی بنیادی حقائق سے ذراآگے کاہے۔ جس ملک میں پولیس کا سب سے روایتی حربہ منشیات کی برآمدگی ہو وہاں ایک سیاسی جماعت کے مرکزی رہنما کو اس طرح حراست میں لینا بہت ہی بے تکا اوربے زار کن عمل ہے۔
قبل ازیں حنیف عباسی کو بھی منشیات کے مقدمے میں سزا دی گئی۔ سال بھر جیل میں گزار کر وہ اب ضمانت پرہیں۔ یہ مقدمہ بھی جس طرح چلا وہ اس امرکوتقویت پہنچاتاہے کہ اپوزیشن کونشانے پر لیاگیاہے تاکہ تحریک اٰنصاف کی راہ ہموارہوتی رہے۔
سابق وزیراعظم شاہدخاقان عباسی کے مطابق رانا ثنااللہ نے سوا تین بجے راوی پل کراس کیا۔ وہاں اے این ایف کے اہلکاروں نے روکا اور تلخی کلامی کی ۔ دو اہلکار گاڑی میں آکر بیٹھ گئے۔ اس کے بعد تھانے لے گئے اس عرصے میں کوئی برآمدگی نہیں ہوئی رات کو دیر سے راناثنااللہ کو بتایا گیا کہ آپ سے ہم نے برآمدگی کی ہے۔
ادھرایف آئی آرکے مطابق رانا ثنا اللہ سے جب منشیات بارے پوچھا گیا تو نہوں نے پچھلی سیٹ سے بریف کیس نکال کر زپ کھولی اور مومی لفافے میں موجود 21کلو ہیروئن خود ہی گواہان کے سامنے اے این ایف کو پیش کر دی۔ ماشاء اللہ!
درحقیقت یہ کہانی اورمجموعی طورپرپوراسکرپٹ ہی بہت بوداہے اوراس میں بے شمارجھول ہیں۔
بھٹوکے زمانے میں چوہدری ظہورالٰہی پر بھینس چوری کامقدمہ بنایاگیاتھا،کیوں کہ نیشنل عوامی پارٹی ،قیوم لیگ اوردیگر چندامیدواروں کی سرحدمیں کامیابیوں کے علاوہ وسطی پنجاب میں گجرات تک وہ واحدسیاست دان تھے جو1970کاالیکشن جیتے اوران کاتعلق پیپلزپارٹی سے نہیں تھا۔وہ حکومت کے ناقدبھی تھے لہٰذاپکڑے گئے۔
موجودہ حکومت روزاول سے اپنی بدحواسیوں اورحماقتوں کے باعث عوام کی تفریح طبع کاسامان کررہی ہے اورجتنااسے طنزومزاح کاموضوع بنایاجاچکاہے شایدہی ایسااعزازکسی سیاسی جماعت کوملاہو۔سوشل میڈیاپرتحریک انصاف کامذاق اڑایاجاتاہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ بین الاقوامی میڈیامیں بھی ،بالخصوص وزیراعظم عمران خان کوان کے بعض اقدامات پر،اس حوالے سے تنقیدکی گئی۔
راناثنااللہ کی گرفتاری کے بعد ایک صارف نے لکھاہے کہ موجودہ حالات کے مطابق شاہد خاقان عباسی کی گرفتاری کیلئے انکی گاڑی سے کسی بھی وقت بم برآمد ہوسکتا ہے۔ایک اورپوسٹ میں کہاگیا تھاکہ لیگی رہنماکی گرفتاری کے لیے موصوف (عمران خان) نے اپنے پسندیدہ ”میدان” یعنی الزام کاانتخاب کیا۔ایک خاتون صارف کاکہناتھاکہ ساہیوال سانحے میں بھی پولیس نے گاڑی سے خودکش جیکٹیں برامد کر لی تھیں، ہیروئن تو بہت عام سی چیز ہے،اس میں انہونی کیا۔صحافی مطیع اللہ جان کی ٹویٹ میں کہاگیاتھاکہ سپریم کورٹ، جے آئی ٹی، نیب اور جوڈیشل کونسل کے بعد پیش خدمت ہے اینٹی نارکوٹکس فورس۔ ویسے مذکورہ صحافی شاید”محکمہ زراعت”لکھنا بھول گئے۔
حکومت اپنی ناکامیوں کے زیراثر، دانش مندانہ طرزعمل سے مزید دور ہوتی جارہی ہے جس کے نتیجے میں بہتری واصلاح کے موہوم امکانات بھی دم توڑ رہے ہیں۔