ناکام وزیراعظم کے دیوانوں کا رقص
Reading Time: 3 minutesپاکستانیوں کو کنویں کا مینڈک بنائے رکھنے کا جو عمل دانستہ یا نادانستہ طور پر کئی برس سے جاری ہے، اس کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ دنیا بھر میں کیا کچھ ہو رہا ہے، اس کی قوم کو ہوا بھی نہ لگنے دی جائے۔
آپ یہی دیکھ لیجئے کہ چین، امریکا اور برطانیہ ہمارے تین بڑے تجارتی و تزویراتی پارٹنر ہیں۔ چین اور امریکا میں خیر سے ہمارے کسی ایک بھی میڈیا گروپ کا کوئی ایک اعزازی نمائندہ تک نہیں پایا جاتا جو وہاں سے ہمیں کچھ کام کی باتوں پر فرسٹ ہینڈ انفارمیشن دے سکے۔ برطانیہ یورپ میں پاکستانیوں کا سب سے بڑا مسکن ہے۔ برطانیہ کی سیاست، ثقافت اور معیشت پر ہمارا ڈائسپورا براہ راست اثرانداز ہوتا ہے۔ یہاں ہمارے نمائندہ خصوصی تو بہت ہیں مگر یہ سب کے سب آپ کو شریف فیملی، اسحاق ڈار اور شہزاد اکبر کی سرگرمیاں دکھانے پر مامور ہیں۔ بریگزٹ کا اونٹ جس کروٹ بھی بیٹھے، ہمارے تجارتی و معاشی مفادات پر لامحالہ اس کے منفی و مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ مگر بریگزٹ کیا ہے اور ہماری صحت پر اس سے کیا فرق پڑ سکتا ہے، اس موضوع پر کسی پاکستانی چینل نے شاید ہی آپ کو آگاہی دینے کی کوشش کی ہو۔ چین کے متعلق ہمیں بس اس قدر علم ہے کہ ہماری اس سے ہمالیہ سے بلند دوستی ہے اور وہ مستقبل کی سپرپاور۔ حال کی سپرپاور کے متعلق ہماری بے خبری کا یہ عالم ہے کہ خود امریکا کے سرکاری نشریاتی ادارے کو پاکستانی چینلز سے آئر ٹائم خرید کر ہمیں اپنے متعلق اور اپنے ہاں مقیم پاکستانیوں کے متعلق آگاہی دینا پڑتی ہے۔
خیر یہ تو کفار کے ممالک ہیں۔ پاکستان سے باہر پاکستانیوں کی سب سے بڑی آبادی مڈل ایسٹ ہے، جہاں کئی شہروں کی بنیادوں میں پاکستانیوں کا خون پسینہ شامل ہے- آج تک کسی پاکستانی چینل نے دیارِغیر میں مقیم ان پاکستانیوں کے شب و روز، ان کے مسائل، ان کی عیدوں، شب براتوں پر پانچ منٹ کی ایک رپورٹ تک دکھانے کی زحمت نہیں کی۔ خلیجی ممالک کے داخلی حالات اور مسائل سے ہم براہ راست جڑے ہوئے ہیں مگر ان سے متعلق ہمارے میڈیا کی معلومات بین الاقوامی ذرائع ابلاغ سے چرائی ہوئی رپورٹوں تک محدود ہیں۔
باقی رہے اپنے ہمسائے، تو بھارت ہے ہی ازلی و ابدی دشمن، ہم نئی دہلی میں بھلا اپنے نمائندے اور مندوب کیوں پالیں۔ بنگلہ دیش ہم سے علیحدہ ہوا ، جان چھوٹی، ہمیں کیا پڑی جو وہاں کی خبریں رکھتے پھریں۔ سری لنکا یار ہے اپنا، ریلوکٹوں کی ٹیم بھجوا دیتا ہے اور ہم اس سے بھی ہار جاتے ہیں، بس اتنا کافی ہے- نیپال اور بھوٹان سے ہم رابطے استوار کرنے کا ابھی سوچ رہے ہیں۔ ایران سے ہمارے صدیوں پرانے تعلقات ہیں جو اس وقت تک خوشگوار رہے جب تک سعودی عرب معرض وجود میں نہیں آیا تھا۔ پیچھے بچا افغانستان جو ہمارے چالیس سالہ احسانات کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے تو اس کے متعلق بس تین باتیں جاننا کافی ہے۔ ایک، طالبان اسی فیصد پر قابض ہیں۔ دو، کٹھ پتلی حکومت کابل تک محدود ہے اور تین، امریکا خجل خوار ہو کر نکل بھاگنے کے چکر میں ہے۔ یہ سوچنے کی ہم نے کبھی زحمت نہیں کی کہ یہ تین جملے رٹے ہوئے بھی ہمیں دس سال ہونے کو ہیں۔
لانگ ٹرم میں یہ لاعلمی ہمارے قومی مفادات کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔ جب مجھ جیسے کنویں کے مینڈک کسی معاملے پر معلومات کے حصول کیلئے بی بی سی، سی این این، آر ٹی ورلڈ، فرانس ٹوینٹی فور، ڈی ڈبلیو، سی ٹی جی این، پیس اور الجزیرہ سے رجوع کرتے ہیں تو ہم اس معاملے کو اسی طرح دیکھنے اور سمجھنے پر مجبور ہوتے ہیں جس طرح یہ چینل اور یہ ممالک ہمیں دکھانا اور سمجھانا چاہتے ہیں۔ عالمی معاملات کو پاکستانی تناظر میں دیکھنے سے ہم محروم رہتے ہیں، کیونکہ "عالمی معاملات کے پاکستانی تناظر” نامی کسی شے کا عملاً وجود ہی نہیں ہے۔
"نہ ہم کسی کے، نہ ہمارا کوئی” والی اس بیگانگی اور بے نیازی نے دولے شاہ کے وہ چوہے پیدا کئے ہیں جنہیں ہمارا 1988 سے اب تک کا سب سے تھکڑ اور ناکام ترین وزیراعظم بتاتا ہے کہ اسے دنیا بھر کے تنازعات میں ثالث تسلیم کر لیا گیا ہے تو وہ اپنی خالی جیبوں والی قمیضیں اور پھٹی ہوئی بنیانیں لہرا کر والہانہ رقص کرنے لگتے ہیں۔
کہا گیا کہ چین اور امریکا کے تجارتی تنازعے میں خان صاحب ثالث کا کردار ادا کریں گے۔
پھر تو چین اور امریکہ دونوں کام سے گئے۔