بِل گیٹس، ”شیر سسٹرز“ اور ہم
Reading Time: 3 minutesڈاکٹر عزیز سرویا
دنیا میں جن ممالک نے ترقی کی سب کی ترقی کا ایک ہی فارمولا رہا: اپنے ہیومن ریسورس پر انویسٹ کرنا۔
اپنے شہریوں کی صحت اور تعلیم پر توجہ دیں، انہیں اپنی توانائیاں صرف کرنے کے آزادانہ مواقع فراہم کریں تو ملک خود بخود ترقی کرنے لگتے ہیں۔ پھر ترقی کرنے والے ملکوں میں بھی وہ ممالک زیادہ تیزی سے آگے جاتے ہیں جو اپنے شہریوں کو ایسی فضا فراہم کریں جس میں وہ کچھ نیا، کچھ آؤٹ آف دا باکس innovation کر کے مسائل کے حل تلاشنے پر incentive پا سکتے ہوں۔
بِل گیٹس نے ہارورڈ سے پڑھ کر اپنے باپ کی طرح وکیل/لاء کنسلٹنٹ بننے کا سوچا تھا۔ مگر اس کی ذہانت اور سازگار ماحول نے مائکروسافٹ کو جنم دیا۔ اس نے تعلیم چھوڑی، ڈگری کو لات ماری، کمپیوٹر آپریٹنگ سسٹم کی مارکیٹ کو مکمل طور پے اپنے انٹیلیجنٹ پراڈکٹ کے سحر میں جکڑا اور دنیا کا امیر ترین آدمی اور بزنس ٹائیکون بن گیا۔ وہ یہاں رُکا نہیں، بلکہ یہاں سے اُس نے ایک نیا اسٹارٹ لیا۔ اس نے دنیا میں پولیو سے ہونی والی معذوری، ہیضے سے ہونے والی اموات کا خاتمہ اپنا مشن بنا لیا۔ ان سمیت گلوبل وارمنگ کے ضمن میں انسانیت کی جو خدمات اب تک اس نے کر ڈالی ہیں شاید ایک انسان کے لیے یہ ممکن ہی نہ تھا۔ ہمارے ملک میں بھی پولیو ویکسین اسی کے پیسے اور کوشش سے مفت پہنچتی ہے۔ (کسی کو دلچسپی ہو تو ڈاکیومینٹری نیٹ فلکس پر موجود ہے)۔
تو جناب بِل گیٹس، اِیلون مَسک، اسٹیو جابز اور مارک زکربرگ، یہ ہیں آدرش ان کے جنہوں نے ترقی کی۔ کیونکہ یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نے خداد داد ذہانت کو بہترین طریقے سے استعمال میں لا کر نہ صرف اپنے لیے نفع کمایا بلکہ دوسروں کو بھی نفع پہنچا گئے۔
جبکہ ہمارے آئیڈیل کیا ہیں؟ شیر سسٹرز، جی ہاں وہی پانچ بہنیں جو سی ایس ایس کر گئیں اور جن کے بارے پڑھ پڑھ کے کل سے آنکھیں دُکھنا شروع ہو گئی ہیں! جو روزانہ مکھی پے مکھی مار کے ملکی خزانے سے ماہانہ تنخواہ وصول کرنے کا کام کرتی ہیں اور عوام سے ایک درجہ اوپر “سوپیریئر سروس” یا شاہ کی نوکرانیاں ہونے کا اعزاز رکھتی ہیں!
پاکستان کا بیوروکریٹ دنیا کا نکھٹو ترین انسان ہے۔ دوسروں کو کیا یہ اپنی ذات تک کو نفع پہنچانے کا اہل نہیں ہوتا۔ لیکن غلام ابن غلام ابن غلام قوم کے لاشعور میں وہی گورے، وہی وائسرائے، وہی حکمرانوں کے کتے نہلانے کی یادیں اب تک تازہ ہیں۔ اور اسی لیے یہ ملک ان معدودے چند ملکوں میں شامل ہے جن کے آدرش “نوکر پیشہ” لوگ ہیں۔ یعنی وہ جو خود دوسرے کے پیسے سے تنخواہ پاتے ہیں اور کسی کو شاذ ہی نفع پہنچاتے ہیں۔
پھر ان کو پسند ہیں ڈاکٹر یا انجینیئر۔ چلو یہاں پھر بھی کوئی تُک بنتی ہے۔ کسی کی جان بچا لینا بڑی بات ہے۔ پھر یہاں تحقیق کی بے تحاشا گنجائش ہے، آپ سائنٹسٹ فزیشن یا فزیسیسٹ بن جائیں تو سر الیگزینڈر فلیمنگ یا نیکولا ٹیسلا بن کر پوری انسانیت کو نفع پہنچانے کی پوزیشن میں بااسانی آ سکتے ہیں۔ لیکن یہاں ان دو پیشوں کی مانگ صرف “نوکری” کے جذبے سے وابستہ ہے۔
اللہ اس جدی پُشتی نوکر قوم کو وسعت نظر عطا فرمائے۔ جن کی کُل ترقی کا دارومدار نوکری حاصل کرنے پے ہے۔ اور اس میں بھی آئیڈیئل یہ کہ نوکری سرکار کی ہو، چار سیلوٹ ٹھوکنے والے چھوٹے ملازم اور گاڑی کا دروازہ کھولنے والا ڈرائیور ہو، اور گاڑی میں بِٹھا کے وہ آپ کو کسی سیاست دان کی چوکھٹ پے اس کے تلوے چاٹنے لے جائے، اور سیاست دان آگے سے خود کسی دولے شاہ کے چوہے کے “بُوٹ” کے نیچے ہو!!!
-Dr. Uzair Saroya