کیا ڈیپ سی ٹرالنگ مچھلی کوناپید کردے گی؟
Reading Time: 6 minutesرباب ابراہیم
ہزارسالوں کی تاریخ سمیٹے شان سے بہتے دریائے سندھ کو دیکھ کر کیٹی بندر کے رہائشی کلیم کے چہرے پر پریشانی کے سائے اور گہرے ہوتے جارہے تھے۔ یہ دریا جو صدیوں سے اس کی زمین کو سیراب اور اس کے کنارے بسنے والے لوگوں کے رزق کا ذریعہ تھا، کچھ اپنوں کی لاپرواہی اورکچھ موسموں کے بدلتے تیورکے باعث اپنی شان اور مٹھاس کھوتا جارہا تھا۔ جس کا کہنا تھا کہ ایک تو پہلے ہی مچھلی کا ذخیرہ کم اوپر سے ڈیپ سی ٹرالرسمندرکے ساتھ ساتھ ان کے خاندانوں کو بھی روند دیتے ہیں۔
کیٹی بندر، کراچی کے جنوب مشرق میں 200کلومیٹرکے فاصلے پرضلع ٹھٹہ میں واقع ہے۔سندھ کے اس ساحلی علاقے میں 42آبادیوں میں 28آبادیوں کو سمندر کا پانی نگل چکا ہے۔جبکہ یہاں کے مکینوں کو کئی مرتبہ بے گھر بھی ہونا پڑا۔ ڈیپ سی ٹرالنگ سے مراد ایسے دیو ہیکل جال ہے جسے سمندرکی تہہ میں تقریبا ایک کلومیٹر سے زائدکی گہرائی میں ربررولرز یا طاقتور اسٹیل کی پلیٹس کی مدد سے نصب کیا جاتا ہے، اسے ۔راک ہوپرز۔ بھی کہتے ہیں۔ مچھلی پکڑنے کے بعد اس دیوقامت جال کو طاقتورمشینوں کے ذریعے کھینچا جاتا ہے، یہ سمندر کی تہہ کو رگیدتا ہوا اپنے راستے میں آنے والی ہرچٹان،،سمندری حیاتیات اور ان کے مسکن کو تباہ کرتاہوا سمیٹ لیا جاتا ہے جو سمندری حیات کے لئے قاتل ہے۔
ماہی گیروں کی ملک گیر تنظم فشرفوک فورم کے مطابق مقامی آبادی کے خدشات کو درست قراردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں ان ٹرالرز نے چھوٹے ماہی گیروں کو نقصان پہنچایا۔گہرے سمندر میں مچھلی نہ ملنے پر یہ چھوٹے ماہی گیروں کے جال توڑتے ہوئے سمندری حدود میں داخل ہوجاتے ہیں۔اور انہیں ڈرانے کے لئے ان پرفائرنگ کرتے اور گرم پانی پھینکتے ہیں۔
وفاقی حکومت کی نئی ڈیپ سی پالیسی سے بھی ہزاروں افراد کا روزگار متاثر ہوا۔نئی پالیسی کے خلاف ماہی گیروں نے احتجاج بھی کیا اور 16 ہزار لانچیں بدستور فش ہاربر پر کھڑی ر ہیں۔ نئی پالیسی سے فشرمینز کوآپریٹو سوسائٹی کو کروڑوں روپوں سے زائد کا نقصان ہوچکا ہے۔پالیسی کے تحت وفاقی حکومت سے لائسنس کے بغیر ماہی گیروں کو سمندر میں 12ناٹیکل سے آگے لانچیں لے جانے کی اجازت نہیں۔ تفصیلات کے مطابق وفاقی حکومت کی نئی ڈیپ سی پالیسی کے نفاذ سے ماہی گیروں سمیت ہزاروں افراد کا روزگار داؤ پر لگا۔
وفاقی حکومت کی جانب سے ستمبر2018 میں ایک اشتہار شائع کرکے نئی ڈیپ پالیسی متعارف کروائی گئی تھی۔پالیسی کے مطابق سمندر میں تین زون قائم کئے گئے۔پہلا زون جو 12ناٹیکل پر مشتمل ہے، کے لیے ماہی گیروں کو وفاقی حکومت سے لائسنس کی ضرورت نہیں ہوگی۔ دوسرے زون کی حدود 12سے 20ناٹیکل جب کہ تیسرے زون کا رقبہ 20سے 200ناٹیکل تک رکھا گیا ہے۔ دونوں زون کے لیے لائسنس کا حصول لازمی قرار دیا گیا ہے۔
اس سلسلے میں ماہی گیروں کولائسنس کے لئے 15روز کا وقت دیا گیا تھا۔ ماہی گیروں کو نئی ڈیپ سی پالیسی سے متعلق اس وقت علم ہوا جب ماہی گیروں کو گہرے سمندر میں جانے سے روک دیا گیا تھا، تاہم حکومت کی جانب سے احتجاج کا نوٹس لینے اور پالیسی پر اعتماد میں نہ لئے جانے پر 10نومبر کو ماہی گیروں نے احتجاجاً اپنی لانچیں فش ہاربر پر کھڑی کردیں۔ ذرائع نے بتایا کہ پالیسی سے متعلق علم نہ ہونے پر ماہی گیروں نے لائسنس حاصل نہیں کیا اور گہرے سمندر کے مقابلے میں 12ناٹیکل کی حدود میں شکار ممکن نہیں۔ ماہی گیروں نے اپنی لانچیں بطور احتجاج فش ہاربر پر کھڑی کر دی تھی، جن کی تعداد ساڑھے 15 ہزار سے 16ہزار تک تھی۔
ذرائع کے مطابق وفاقی وزیر میری ٹائم افیئرز علی زیدی سمیت وزیر اعلی سندھ سے بھی مذکورہ مسئلے پر بات ہوئی، تاہم معاملے کے حل کیلئے اب تک قابل اطمینان اقدامات نہیں کئے گئے۔ چیئرمین فشر مینز کو آپریٹو سوسائٹی کے ایک ذمے دار کہنا ہے کہ ماہی گیری کے پیشے سے ہزاروں خاندان وابستہ ہیں۔ ڈیپ سی پالیسی ماہی گیروں کا معاشی قتل ہے۔نئی پالیسی بناتے وقت اور اس کے نفاذ سے قبل اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا۔ ماہی گیروں کے احتجاج پر وفاقی وزیر میری ٹائم علی زید ی نے نومبر2018میں نئی ڈیپ سی پالیسی معطل کردی تھی کہ یہ پالیسی نگراں حکومت کے دور میں بنائی گئی تھی۔ 2018 میں نئی ڈیپ سی فشنگ پالیسی سے سی فوڈز کی برآمدات کو بری طرح سے متاثر ہوئی جبکہ پاکستان میری ٹائم سیکورٹی فشنگ ٹریلرز کو گہرے سمندر میں جانے سے روک دیا تھا، لیکن اس بار مکمل عمل درآمد نہیں کیا جارہا اور مچھیروں نے اس پر دوبارہ احتجاج بھی کیا۔
موجودہ حکومت کی نئی ڈیپ سی پالیسی سے ملک سے ہونے والی مچھلی کی مجموعی برآمدات میں 11 فیصد کی کمی ہوئی اور صرف جولائی سے ستمبر 2018 کے دوران 3ماہ میں مچھلی کی برآمدات 8 کروڑ ڈالر کمی سے 67 کروڑ ڈالر کی سطح پر آ گئی تھی۔
ڈسٹرکٹ ٹھٹہ پاکستان فشرفوک فورم کے جنرل سیکریٹری محمد یعقوب شہزادو اوٹھو کے مطابق ڈیپ سی ٹرالنگ سمندر ی نظام کے بنیادی ڈھانچے اور اس میں موجود ایکوسسٹم کوبھی تباہی کے خطرے سے دوچارکردیتی ہے۔ایکو سسٹم سے مراد ایک ایسا ماحولیاتی نظام ہے۔جو ایک علاقے کے رہنے والے، وسائل، رہائش اورباشندوں کے درمیان تعلقا ت کی زنجیر ہے جو انہیں ایک دوسرے سے جوڑ کے رکھتا ہے۔ اس نظام میں انسان، پرندے، درخت،جانور، پودے، مچھلی، پانی، مٹی اورمائیکروحیاتیا ت شامل ہیں۔ اس ماحولیاتی برادری میں ہرجاندارکی زندگی کا انحصار دوسرے پرمنحصر ہے۔ ایکو سسٹم کا ایک حصہ خراب یا غائب ہونے کی صورت میں منفی اثرات کا شکارتمام ماحولیاتی برادری کو ہونا پڑے گا۔
حالیہ سائنسی ریسرچ کے مطابق سمندری تہہ میں موجود مختلف قسم کے مونگا۔ مرجان۔ یعنی ڈھانچہ بنانے والے ہوا پسند حیوان۔ یہ چھوٹے چھوٹے جیلی جیسے بحری حیوانات چونے جیسا مادہ خارج کرتے ہیں جو ڈھانچہ تشکیل کرتا ہے۔ ان کا لاروا ابتدا میں سمندر میں کسی چٹان سے چیک جاتا ہے۔ اس میں سے ایک نیالا روا نکل آتا ہے۔ جب پہلا لاروا مر جاتا ہے تو نیا لاروا اس کے ڈھانچہ سے چپک جاتا ہے اور نشوونما پاتا رہتا ہے۔ چنانچہ کورل کی تہہ بنتی چلی جاتی ہے۔ انہیں کورل ریفس کہتے ہیں۔جو سمندری حیاتیات اور اس میں موجود ایکو سسٹم کو زندہ رکھنے میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار اداکرتے ہیں۔
پاکستان فشرفوک فورم کے سابق منیجر پروگرامز مصطفی گرگیز نے بتایا۔ڈیب سی ٹرالنگ چھوٹے ماہی گیروں کے لئے خطرناک ہے۔اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائریشن نے Voluntary Guidelines for Securing Sustainable Small-scale Fisheriesکے نام سے ایک قانون متعارف کروایا۔یہ ضرورت اس لیے پیش آئی۔کہ جس طرح پوری دنیا میں بے تحاشا فشنگ ہورہی ہے۔ اگریہ سلسلہ جاری رہا تو ایک سروے کے مطابق 2047تک پوری دنیا کے سمندر مچھلی سے خالی ہوجائیں گے۔اس قانون کی رو سے بڑے پیمانے کی ماہی گیری کو بند کرنا ہوگا۔اور چھوٹے پیمانے پر فشریز کوترقی دینا ہوگی۔تاکہ سمندری حیاتیات اور اس کا ایکو سسٹم برقراررہے۔گہرے سمندروں میں ایکو سسٹم کو قائم رکھنے والی یہ حیاتیات ایک بار ختم ہونے کے بعد دوبارہ نشونما پانے میں ہزاروں یا صدیوں کا وقت لیتی ہے۔جبکہ کورل ریفس اور اسپنج کمیونیٹیزکی دوبارہ تخلیق کا عمل بھی سست ہوتاہے۔
طاقتور جال جب سمندری فرش سے سمٹنا شروع ہوتا ہے تو اپنے اندر مچھلیوں کے ہزاروں انڈے بھی تباہ کردیتا ہے۔اس کے علاوہ گہرے سمندروں میں پائے جانے والی شارک،وہیل شارک،سبز کچھوے،چھوٹا سمندری کچھوا،.hawksbill loggerhead turtles humpbac and bottlenose dolphins and little indian porpoises کو بھی سمیٹ لیتا ہے۔جن کے لیے سمندر کی تہہ میں موجود اس موت کے بلڈوزر سے نکلنا ناممکن ہوتا ہے۔
پاکستان میرین فشنگ کے سابق ڈائریکٹر جنرل اور ڈبلیو ڈبلیو ایف کے موجودہ کنسلٹنٹ محمد معظم خان نے فشرفورک فورم کے عہدیداروں کے دعوں کی نفی کرتے ہوئے بتایا کہ 2005نومبر سے پاکستانی سمندر حدود میں ٹرالنگ نہیں ہوئی۔اس عرصے میں اگرٹرالنگ ہوئی بھی ہے۔توپاکستانی حدود کے باہر سے ہوئی ہے۔جو بارہ میل پرختم ہوجاتی ہے۔
محمد معظم خان کا کہنا تھا کہ پابندی سے پہلے ٹرالنگ کی اجازت 35میل ناٹیکل سے باہر تھی۔لیکن پابندی ہٹنے کے بعد 12میل سے بحال ہوگئی۔اس طرح ماہی گیروں کا استحصال شروع ہوا۔یعنی پابندی لگوانے والے ہی ماہی گیرکمیونٹی کے لئے نقصان دہ ثابت ہوئے۔ان کا یہ بھی کہنا تھاکہ جدید مانٹرنگ کی وجہ سے اب ان جہازوں کے لئے سمندری حدود کی خلاف ورزی ممکن نہ تھی۔اس لیے رفتہ رفتہ یہ کم ہوتے چلے گئے۔۔ان کا کہنا تھا کہ مقامی fleetزیادہ ہونے اور اسٹاک کم ہونے کی وجہ سے گورنمنٹ ہرسال اعلان تو کرتی ہے۔مگر ٹرالنگ کا لائسنس نہیں دیتی۔
کراچی اور سندھ کی ساحلی برادریوں نے صوبائی قوانین کو لاگو کرنے اور ایک موثر نگرانی کے نظام کے ساتھ گہرے سمندر میں ٹرالنگ پر مکمل پابندی کا مطالبہ کیا تھا۔ان دیوقامت جالوں نے ہزاروں کی تعداد میں مقامی ماہی گیروں کا ذریعہ معاش بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔اس بارے میں سابق ڈی جی کا یہ کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے سمندری قانون کے مطابق ملکی حدود سے باہر دو سو میل تک کی حدود Exculsive economic zoneکہلاتی ہے۔ اگر اس علاقے میں پاکستان کے اجازت یافتہ جہاز نہیں چلے گی تو دوسرے ممالک جیسے سینٹرل ایشیا اور گلف جن کے قریب ترین بحرہ عرب موجود ہے۔اکنامک ایکٹویٹی اور ٹرالنگ کا حق مانگ سکتے ہیں۔کیونکہ ان کے پاس مضبوط موقف ہوگا۔کہ اگر ملک خود فشنگ نہیں کررہا تو انہیں اجازت دی جائے۔اس لیے ٹرالنگ ہو تاکہ کوئی دوسرا ملک ہمارے پانیوں میں فشنگ نہ کرسکے۔
ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ ڈیپ سی ٹرالنگ سے نقصان ہو رہاہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ڈیپ سی ٹرالنگ کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ کیونکہ پاکستان میں ماہی گیری کے وسائل پہلے ہی بہت گھٹ گئے ہیں۔ان حالات میں گہرے سمندروں میں ٹرالروں کے ذریعے فشنگ چھوٹے ماہی گیروں کو مزید سختی سے دوچار کردے گی۔
Freelance contributor at The Nature News dot Com
Works at National Council of Environmental Journalists (NCEJ)
Freelance contributor at WWF-Pakistan