سکھوں کا سب سے بڑا قتل عام
Reading Time: 3 minutesاٹھارویں صدی کی سب سے بڑی لڑائی 1761 میں پانی پت کی تیسری لڑائی تھی۔ ہندوستان پر آٹھ بار حملہ آور ہونے والا تاریخ کا سب سے بڑا افغان بادشاہ، اپنے وقت کا سب سے بڑا جنگجو، احمد شاہ ابدالی فاتح ٹھہرا۔ اس نے مرہٹوں کی فوجی طاقت کو برباد کر ڈالا۔
واپسی پر دریائے ستلج کو پار کرتے ہی اس پر ایک اور عفریت نازل ہو گئی۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ کوئی اس کے لشکر پر حملہ کر سکتا ہے۔ یہ حملہ آور سکھ تھے۔ سکھ بار بار لشکر پر حملہ کرتے قیدی عورتیں اور بچوں کو آزاد کرواتے اور بھاگ جاتے۔ دریائے سندھ کو پار کرنے تک احمد شاہ ابدالی اپنی لوٹ کے بڑے حصے اور قیدیوں سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔ صدی کی سب سے بڑی جنگ کا فاتح چھاپہ مار سکھ گھڑ سواروں کے سامنے بے بس تھا۔
سندھ پار کرتے ہی اس نے قسم کھائی کہ وہ سکھوں کو ہمیشہ کے لئے ختم کر ڈالے گا۔ احمد شاہ کے سندھ پار جاتے ہی سکھوں نے جسا سنگھ الووالیا کی قیادت میں مرکزی پنجاب اور سرہند میں ہر طرف حملے شروع کر دیے۔ احمد شاہ، کابل سے کشمیر اور دہلی تک حکمران تھا۔ تاہم پنجاب اس کے لئے سکھوں کی وجہ سے شدید درد سر بن چکا تھا۔ پنجاب کو سکھوں سے ہمیشہ کے لئے پاک کر دینے کے ارادے سے احمد شاہ درانی اکیل داس آف جنڈیالہ کی مخبری پر فروری 1762 کو ایک بڑی فوج لے کر پنجاب میں داخل ہوا۔
سردار جسا سنگھ الووالیا اور چراٹ سنگھ شکرچکیہ، سکھ دل (چھاپہ مار فوج) کے سالار تھے۔ سرہند کا افعان حکمران زین خان بیس ہزار کی فوج کے ساتھ تیار تھا۔ بھائی خان آف ملورکوٹلا بھی اپنی افواج کے ساتھ تیار تھے۔ اکیل داس آف جنڈلیا، نے درانی کو خبر بھیجی کے وہ جنڈیالہ جو کہ امرتسر سے اٹھارہ کلومیٹر دور ہے، میں سکھوں کے نرغے میں ہے۔ احمد شاہ اپنی افواج کے ساتھ آگے بڑھا تو سکھ فورا پیچھے ہٹ گئے۔ سکھوں کے ساتھ ان کے خاندان بھی تھے ان کا خیال تھا کہ پہلے عورتوں اور بچوں کو برنالہ کے راستے، ہریانہ کے ریگستان میں چھوڑ کر احمد شاہ کا سامنا کیا جائے۔ لیکن احمد شاہ نے صرف اڑتالیس گھنٹے میں دو سو چالیس کلومیڑ کا فاصلہ، جس میں دو دریا بھی شامل ہیں، طے کر کے سکھوں کو کپ راہیرہ جو ملورکوٹلا سے اٹھارہ کلومیڑ دور پر جالیا۔
پانچ فروری سترہ سو باسٹھ کو زین خان کی بیس ہزار فوج، بھاری توپیں اور احمد شاہ ابدالی کی تیس ہزار گھڑ سواروں نے سکھوں پر حملہ کر دیا۔ سکھوں کی تعداد پچاس ہزار کے قریب تھے جس میں عورتیں بچے بوڑھے اور سویلین کی تعداد دس سے پندرہ ہزار کے قریب تھی۔ سکھوں کی گیارہ مثلوں کے سرداوں اور دل خالصہ کے بڑے چیف سردار جیسا سنگھ الووالیا اور سردار چراٹ سنگھ نے فیصلہ کیا کہ تمام افواج سویلین کو اپنے گھیرے میں لے برنالہ کی طرف سفر جاری رکھیں گے۔ بقول رتن سنگھ بنگو سنگھ جنگجووں نے سویلین کو یوں گیھرے میں لے رکھا تھا جیسے مرغی اپنے چوروں کو اپنے پروں میں چھپا لیتی ہے۔ لڑتے لڑتے چلنا اور چلتے چلتے لڑنا ہی سکھ جنگی پالیسی تھی۔ علی صبح شروع ہوا یہ حملہ دوپہر گئے تک جاری رہا۔ لڑتے لڑتے اور چلتے چلتے ایک بڑا تالاب نظر آیا تو دونوں طرف سے لڑائی بند ہو گئی۔ سکھوں نے پانی حاصل کرنے کے بعد اپنا سفر جاری رکھا۔ احمد شاہ کی افواج تھک چکی تھیں۔ آگے ریگستانی راستہ تھا۔ احمد شاہ نے وہیں سے واپس لاہور کی راہ لی۔ اس کی ہمراہ کئی سو سکھ زنجیروں میں بندھے تھے۔ لاہور واپس آ کر اس نے کچھ دن آرام کیا اور تمام قیدیوں کو قتل کر دیا۔
دوسری طرف سکھ قافلہ قریب قریب اپنی ساٹھ فی صد نفری سے ہاتھ دھو چکا تھا۔ اس حملے میں سکھوں کے جانی نقصان کا اندازہ بیس سے تیس اور کچھ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ ہے۔ مسکین، اس زمانے کے تاریخ دان، کے مطابق سکھ اموات کا تخمینہ پیچس ہزار تھا ، اور رتن سنگھ بھنگو ، تیس ہزار بتاتے ہیں۔ یہ سکھوں کے لئے ایک گہرا گھاؤ تھا ، لیکن ان کے حوصلوں کا یہ حال تھا کہ ، اس دن شام کو ایک ساتھ جمع ہوتے ہی، ایک نحنگ، خالصہ فوجی، کھڑا ہوا اور اونچی آواز میں اعلان کیا ، "جعلی بہایا گیا۔ حقیقی خالصہ برقرار ہے۔”
سکھوں نے تین مہینوں کے اندر اندر ایک بار پھر سرہند کے زین خان پر حملہ کیا، اس نے مئی میں انہیں پچاس ہزار روپے دے کر امن خریدا تھا، جولائی تا اگست 1762 کے دوران لاہور کے نواحی علاقے کو سکھ ایک بار پھر تخت و تاراج کر رہے تھے ، احمد شاہ ابدالی، جو اب بھی پنجاب میں تھا ، وہ بے بسی سے سکھوں کے ہاتھوں، جالندھر دوآب کی تباہی دیکھ تھا۔ سترہ سو تراسی میں سردار جسا سنگھ الووالیا کا انتقال یو گیا۔ اس وقت تک پنجاب پر سکھوں کے مختلف گروہوں کی مخلتف علاقوں پر حکومت تھی انہیں مثل کہا جاتا تھا۔ سکھوں کے قبضے میں تقریبا سارا پنجاب آ چکا تھا۔ سردار رنجیت سنکھ کے مہاراجہ بننے سے پہلے پنجاب بارہ مثلوں میں تقسیم تھا۔