بہاری آج بھی پاکستانی ہیں مگر
Reading Time: 3 minutesمحمد عاصم
پاکستان کی تاریخ میں دسمبر ایک سوگوار اور دردناک مہینہ ثابت ہوا ہے جس نے لاکھوں افراد کواشک بار کیا۔ سولہ دسمبر کوپاکستانی تاریخ کا سیاہ ترین دن کہا جاتا ہے کیونکہ اس دن دشمنوں کی سازش کی وجہ سے مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہوا تھا اور دنیا کے نقشہ پر بنگلہ دیش وجود میں آیا تھا۔ اسی تاریخ کو دشمن نے دوسرا وار کیا اور پشارو میں واقعہ آرمی پبلک سکول میں دہشتگردی کا ہولناک واقعہ پیش آیا۔
پاکستان نے آج تک بنگلہ دیش میں پھنسے بہاریوں کو شہریت نہیں دی۔ بہاری ایک ایسی قوم ہے جنہوں نے پاکستان کے ساتھ وفاداری کی ایسی بےمثال داستان قائم کی۔ ایسی قوم جس نے اپنے خون سے اس مٹی کو سینچا ہے۔ بہاری وہ لوگ ہیں جنہوں نے پاکستان کے قیام کے وقت اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا اور ہندو مسلم فسادات میں ایک اندازے کے مطابق تیس ہزار کے قریب بہاری شہید ہوئے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے بہاریوں کی قربانیوں کو اُجاگر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اپنی زندگی میں پاکستان کو وجود میں دیکھوں گا ، لیکن بہار کے سانحے نے اسے جنم دیا ہے۔” قیام پاکستان کے بعد قریبا ۱۔۵ ملین بہاریوں نے مشرقی پاکستان کا رخ کیا تھا، لیکن افسوس کہ بہاریوں کے مسائل ابھی ختم نہیں ہوئے تھے۔
۱۹۷۱کے جون کے ماہ میں مشرقی پاکستان میں بنگالیوں نے بہاریوں کو بےدردی سے قتل کیا تھا۔ مغربی پاکستان میں بھی فسادات جاری تھے۔ پاکستان سیاسی طور پر عدم استحکام کا شکار تھا۔ عوامی لیگ کے شرپسند عناصروں نے بہت سے عام پاکستانیوں کو بھی بےدردی سے قتل کیا تھا۔ اس تمام تر صورتحال پر قابو پانے کے لیے پاکستانی فوج کی جانب سے مشرقی پاکستان میں آپریشن شروع کیا گیا جس میں بہاریوں نے پاکستانی فوج کا ساتھ دیا تھا۔ پاکستانی فوج نے جیسے ہی حالت پر قابو پانا شروع کیا تھا کہ دشمن کو یہ بات ہضم نہ ہوئی اور بھارتی فوج نے مشرقی پاکستان پر حملہ کیا۔
جنگ کا خاتمہ سولہ دسمبر کو ہوا جب پاکستان کی فوج نے ہتھیار ڈال دیے۔ لیکن افسوس کہ بہاریوں کو مکتی باہنی کے انتہا پسند لوگوں کی جانب سے قتل کیاگیا تھا۔ مکتی باہنی کو بھارتی فوج نے ٹرین کیا تھا۔ بہاریوں کی ایک بڑی تعداد مغربی پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہوئی لیکن بہت سے بہاری میانمار کے امدادی کیمپوں میں ہی رہ گئے تھے۔ جب بہاری اپنی جان بچا کر مغربی پاکستان پہنچے تو پاکستانی حکومت نے بہاریوں کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ گذشتہ حکومتوں نے بہاریوں سے بہت وعدے کیے تھے لیکن آج تک کسی بھی حکومت کی جانب سے یہ وعدے وفا نہیں کیے گئے۔
آج بھی ہزاروں کی تعداد میں بہاری جنیوا کیمپ، بنگلہ دیش میں بدترین حالت میں اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں جن کو پاکستانی قرار دیا جاتا ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں بہاری بنا شناخت کے کراچی سمیت پاکستان کے مختلف علاقوں میں اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ایک بہاری خاتون وزیراعظم کو دہائی دے رہی تھی کہ اس مسئلے کو حل کیا جائے۔
اب وقت ہے کہ پاکستان کی حکومت اپنے کیے ہوئے وعدوں کو وفا کرے اور بہاریوں کو عزت اور وقار کے ساتھ پاکستانی شہری تسلیم کرے اور اُن کو شناختی کارڈ جاری کرے، بہاریوں کو سرکاری نوکریوں سمیت تمام اعلیٰ عدوں پر فائز کیا جائے تاکہ اُن کو اپنی وفاداری کا صلہ مل سکے، اپنے لہو سے وطن کی مٹی کے لیے قربانی دینا بہت مشکل اور تکلیف دہ عمل ہے۔ لیکن یہ پیچیدہ عمل بہاریوں کی جانب سے ایک دفعہ نہیں بلکہ بارہا کیا گیا اور اس بات میں بھی کوئی دور رائے نہیں کہ مستقبل میں جب بھی پاکستان کو قربانی کی ضرورت ہوگی تو ہم بہاریوں کو بیچھے نہیں پایئں گے لیکن ابھی ہمارا فرض ہے کہ ہم بہاریوں کہ حقوق کے حصول کے لیے اُن کے ہم آواز ہوں اور یہی انسانیت کا تقاضا ہے۔