کالم

ملک صیب اور ببلو کی گیم

دسمبر 5, 2019 3 min

ملک صیب اور ببلو کی گیم

Reading Time: 3 minutes

شریفوں نے صحافیوں کے انٹرنیشنل کنسورشیم میں چیمے کو اپنا مخبر رکھا ہوا تھا۔ چیمے کو جب پانامہ کیس کا پتہ چلا تو اس نے تین مہینے پہلے ہی ببلو اور پپلو کو فون کر کے بتا دیا۔ اتفاق سے ملک صاحب ان دنوں لندن گئے ہوئے تھے۔ ببلو اور پپلو نے انہیں رات کو ہائیڈ پارک کے ایک ویران گوشے میں بلایا۔ ببلو نے اڑنگا دے کر ملک صاحب کو نیچے گرایا اور پپلو نے بندوق ان کے سر پر تان کر ون ہائیڈ پارک پلیس کی فروخت کے کاغذات اور دس ارب کے چیک پر زبردستی دستخط کروا لیے۔

یہ بات تو اب اظہر من الشمس ہے کہ برطانوی حکومت ان چوروں اور رسہ گیروں کے ساتھ ملی ہوئی ہے- ایماندار ہینڈسم کی تمام تر کوششوں کے باجود وہ پاکستانی حکومت کی آل شریف کے خلاف درخواستوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینکتی رہی اور انٹرپول کو بھی اس معاملے میں گمراہ کرتی رہی۔ اور تو اور ملک صیب سے زبردستی وصول کئے دس ارب کا بھی اس نے ببلو پپلو سے کوئی حساب کتاب نہیں لیا۔

ملک صیب اس صورتحال پر نہایت رنجیدہ تھے، ہینڈسم ایماندار نے ان کی دلجوئی کیلئے اپنے جیمز بونڈ المعروف شہزاد اکبر کو لندن بھیجا۔ ملک صیب نے شریف خاندان کی برطانیہ میں خفیہ جائیدادوں اور گھناؤنی سرگرمیوں کے ٹھوس ثبوت جیمز بانڈ کے لیپ ٹاپ میں فیڈ کر دیے، ساتھ برطانیہ میں قیام و طعام کے اخراجات بھی ایک بریف کیس میں ڈال کر جیمز بانڈ کے حوالے کئے۔ جیمز بانڈ یہ ثبوت لے کر خفیہ طور پر برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کے سربراہ سے ملے۔ انہیں امید تھی کہ برطانیہ جیسی مادر جمہوریت ریاست میں اس اہم عہدے پر ہمارے سر تا پا محتسب جیسا کوئی دلیر اور ایماندار شخص فائز ہوگا جو ان چشم کشا شواہد کے ملنے پر فوری کاروائی کرے گا اور ببلو پپلو کو جائیداد ضبط کر کے پاکستان کے حوالے کر دے گا۔

پاکستان کی بدقسمتی کہ کتی چوروں سے ملی ہوئی تھی۔ این سی اے کے سربراہ نے وڈے میاں صیب کو کال کھڑکا دی اور بتایا کہ آپ کے پاس وقت کم ہے کوئی انتظام کر لیں ورنہ بات منظرعام پر آئی تو کاروائی کرنا میری مجبوری بن جائے گی۔ میاں صیب نے بیماری کا بہانہ بنایا، جعلی میڈیکل رپورٹیں تیار کیں اور عدالت کو گمراہ کر کے ملک سے فرار ہو گئے۔ ان کی اداکاری اتنی شاندار تھی کہ بدقسمتی سے خان صاب بھی دھوکے میں آ گئے اور انہیں جانے دیا۔ وہ تو میاں صیب کو ایک ایک چھلانگ میں جہاز کی چار چار سیڑھیاں پھلانگتے دیکھ کر خان صاحب کو سمجھ آئی کہ دھوکہ ہو گیا ہے-

لندن پہنچتے ہی میاں صیب نے ہارلے سٹریٹ کے ایک ہسپتال میں بورس جانسن اور این سی اے کے سربراہ سے خفیہ میٹنگ کی۔ جس میں انہیں بتایا گیا کہ اس ساری گیم کے پیچھے ملک صاب ہیں۔ میاں صاحب نے دھمکی دی کہ اگر میرے ببلو پپلو کے خلاف کاروائی کی تو نہ صرف میں، بلکہ میرے قطری، سعودی، ترک اور لبنانی دوست بھی برطانیہ سے اپنی سرمایہ کاری نکال لیں گے۔ برطانیہ اور خصوصاً لندن کی ساری رونقیں ہی جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے کالے دھن کی مرہون منت ہیں۔ جانسن ترلے منتوں پر آ گیا اور میاں صاب سے دو تین ہفتوں کا وقت مانگا۔

این سی اے نے چند دنوں میں تمام ثبوت و شواہد کو تبدیل کر کے ببلو پپلو کو صاف بچا لیا اور مدعا ملک صیب پہ ڈال دیا۔ ملک صاب کو دھمکی دی گئی کہ خاموشی سے ڈیل کر لو ورنہ تم پر پندرہ کلو چرس بھی ڈال دی جائے گی۔ ملک صاب اپنی اور ملک و قوم کی عزت کی خاطر پلی بارگین پہ مجبور ہو گئے۔

توسیع شدہ سالار اعظم کو جب یہ خبر ملی تو انہوں نے ایماندار ہینڈسم اور جیمز بانڈ کی خوب لی۔ ملک صاب کی ملک و قوم اور ملک و قوم کے محافظوں کیلئے پہلے ہی انگنت گرانقدر خدمات ہیں اور یہ ابرکرم برستا ہی رہے اس کیلئے ضروری ہے کہ ملک صاب کی ساکھ اور مال پر کسی صورت آنچ نہ آنے دی جائے۔ چنانچہ ایک خفیہ میٹنگ میں کچھ اہم فیصلے کیے گئے۔

ملک صاحب کو برطانیہ کی عدالت نے جو ہرجانہ ٹھوکا ہے، وہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے اکاؤنٹ میں منتقل ہو چکا۔ اب یہ اڑتیس ارب حکومت پاکستان ملک صاب کی گراں قدر خدمات کے صلے میں ان کے اکاؤنٹ میں منتقل کرے گی، وہ اسے سپریم کورٹ میں خود پر عائد کردہ جرمانے کی مد میں جمع کروا دیں گے۔ سپریم کورٹ یہ رقم دوبارہ وفاقی حکومت کو دے دے گی، وفاقی حکومت دوبارہ یہ رقم ملک صاب کو لوٹانے کیلئے کوئی جگاڑ سوچ رہی ہے۔

دجالی میڈیا، بھاڑے کے ٹٹو اور عالمی طاقتوں کے راتب خور آپ کو کچھ بھی بتاتے رہیں، حقیقت یہ ہے کہ یہ ببلو پپلو کا حرام کا پیسہ تھا جو ملک صاب قربانی دے کر پاکستان واپس لے آئے ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات کی نزاکتوں کی وجہ سے خان صاحب اس معاملے پر اپنا ڈھائی فٹ کا منہ اور پانچ گز کی زبان کھولنے سے فی الحال قاصر ہیں۔ اور اس ناشکری قوم کو احساس ہی نہیں کہ اوپر بندہ ایماندار ہو تو …………..

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے