کالم کھیل

فاتح "The Conquerer”

دسمبر 10, 2019 5 min

فاتح "The Conquerer”

Reading Time: 5 minutes

محمد اشفاق

میٹرک کے پیپرز کے بعد ہم فری تھے, پی سی ہوٹل کے عقب میں آرمی سکواش کورٹس ہیں- یہاں ایک کوچ طاہر کے جاننے والے تھے, سوچا ذرا سکواش کھیل کے بھی دیکھا جائے- ہمیں یہ بچگانہ سا کھیل لگتا تھا, بند کمرے میں دیوار پر گیند مارتے رہنا, جس سے گر جائے وہ ہار گیا- ہم دونوں فٹبالر تھے طاہر شاندار گول کیپر اور میں بہترین ڈیفنڈر۔

خستہ حال کورٹ میں کوچ نے پندرہ بیس منٹ ہمیں کچھ موٹی موٹی باتیں سمجھائیں اور یہ کہتے ہوئے باہر نکل گئے- اب مجھے کھیل کے دکھاؤ….جہانگیر خان کی طرح۔

جہانگیر خان کی طرح ہم کیا کھیل کے دکھاتے البتہ پاگلوں کی طرح کھیلے- ٹھیک سات منٹ بعد ہم دونوں نیم مردہ حالت میں کورٹ میں چت پڑے تھے۔

اکیس فٹ چوڑے کورٹ میں صرف بتیس فٹ کے فاصلے سے سکواش کوئی 100 سے 280 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اڑتی آپ کی جانب آتی ہے, دو ایک جیسے پلئیرز میں ایک پوائنٹ کیلئے سو سو شاٹس کی ریلی عام سی بات ہے, یہی وجہ ہے کہ بہت سے دیگر کھیلوں کے پروفیشنل پلیئرز بھی خود کو فِٹ رکھنے کیلئے سکواش کھیلتے ہیں- میں اور طاہر روزانہ دو سے ڈھائی گھنٹہ فٹبال کھیلتے تھے جب ہم سکواش کورٹ میں صرف سات منٹ میں ڈھیر ہوئے- تب معلوم ہوا کہ یہ بچوں کی گیم نہیں اور تبھی احساس ہوا کہ جہانگیر خان کتنے عظیم کھلاڑی تھے۔

10 دسمبر 1963 کو جہانگیر کراچی میں ایک پٹھان گھرانے میں پیدا ہوئے- ان کے والد روشن خان اور چچا ہاشم خان دونوں اپنے وقت کے سکواش چیمپئن تھے- جہانگیر کی کھیل میں دلچسپی ہونا قدرتی امر تھا مگر ان کے اپنے الفاظ میں, "میں اپنے خاندان کا سب سے کمزور, لاغر اور بیمار بچہ تھا-” ان کیلئے چلنا پھرنا بھی دوبھر تھا, کم سنی میں ہی ہرنیا کے آپریشن ہوئے, مگر جب کھیلنا شروع کیا تو صرف پندرہ سال کی عمر میں پاکستان جونئر سکواش چیمپئن بنے- اسی سال یعنی 1979 میں پاکستانی ٹیم آسٹریلیا ورلڈ اوپن میں شرکت کیلئے گئی, جہانگیر خان کے بڑے بھائی طورسم خان ٹیم میں شامل تھے مگر جسمانی طور پر کمزور ہونے کی وجہ سے جہانگیر خان کو اس ٹیم میں شامل نہیں کیا گیا- جہانگیر خان ورلڈ امیچور چیمپئن شپ میں چلے گئے اور کم عمر ترین چیمپئن بننے کا اعزاز اپنے نام کر لیا۔

ان کے بھائی طورسم خان جو خاندان اور پاکستان کی امیدوں کا مرکز تھے, آسٹریلیا میں میچ کے دوران ہی دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے- کم سن جہانگیر کیلئے یہ بہت بڑا صدمہ تھا- کئی ماہ سکواش کورٹ سے دور رہنے کے بعد بالآخر اپنا کیرئر اپنے بھائی کے نام سے منسوب کر کے وہ دوبارہ میدان میں اترے, ان کے کزن رحمت خان نے اپنا پروفیشنل کیرئر چھوڑ کر جہانگیر کی کوچنگ کی ذمہ داری اٹھالی- اور سکواش کی تاریخ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بدل گئی۔

آسٹریلیا کے جیف ہنٹ اس وقت سکواش کے نمبر ون کھلاڑی تھے- 1981 میں جہانگیر خان نے صرف سترہ برس کی عمر میں انہیں ورلڈ اوپن سکواش چیمپئن شپ میں شکست دے کر عالمی ٹائٹل اپنے نام کیا- مگر اسی میچ سے ایک اور سلسلے کا آغاز ہوا۔

دنیا کی معلوم تاریخ میں……
کسی بھی انفرادی کھیل میں…..
کسی بھی ایتھلیٹ کی…….
سب سے طویل winning streak کا آغاز-

اس دن کے بعد سے مسلسل پانچ سال اور آٹھ مہینے جہانگیر خان ناقابل شکست رہے- ان پانچ سال اور آٹھ ماہ کے دوران انہوں نے مسلسل 555 میچز میں فتح حاصل کی- اسی عرصے کے دوران انہوں نے سکواش کی تاریخ کا 2014 تک سب سے طویل ترین یعنی دو گھنٹے چھیالیس منٹ کا مقابلہ کیا اور فاتح رہے- اسی عرصے کے دوران جہانگیر خان نے انٹرنیشنل سکواش پلئیرز ایسوسی ایشن چیمپئن شپ کا فائنل بغیر کوئی سنگل پوائنٹ ہارے اپنے نام کیا-

جہاں جہاں سکواش کھیلی جاتی تھی یا جہاں جہاں لوگ اس کھیل کے نام سے واقف تھے وہاں وہاں ہر ٹورنامنٹ کے آغاز پر ایک ہی سوال پوچھا جاتا تھا .. کیا کوئی جہانگیر خان کو ہرا پائے گا؟؟ اور ہر فائنل میچ کے بعد جہانگیر خان کے ناقابل شکست ہونے کا تاثر اور مضبوط ہوجاتا تھا- اوپر سے ان کی شخصیت……سکواش کورٹ میں شیر کی طرح دھاڑتا جہانگیر وننگ شارٹ کھیل کر اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوتا تھا اور باہر نکل کر ایک بالکل مختلف انسان بن جاتا تھا- ڈاؤن ٹو ارتھ, شرمیلا, مخالف کھلاڑیوں کو احترام دینے والا- برطانیہ, نیوزی لینڈ, آسٹریلیا, مصر اور ہانگ کانگ میں جس کی ایک جھلک دکھانے لوگ اپنی فیملیوں کو دوردراز سے لایا کرتے تھے- دنیا کے سب سپورٹس چینلز ہی جس پہ فیچرز چلا چکے تھے- نیوزی لینڈ کے ایک چینل کی اس پر بنائی گئی فلم کا ٹائٹل "The Conquerer” تو گویا اس کا لقب بن چکا تھا- اس کے نام کا مطلب بھی تو یہی تھا….جہاں گیر-

جہانگیر کے ہم عصر کھلاڑیوں نے ان پہ فتح کا خواب ہی دل سے نکال دیا تھا….سوائے راس نارمن کے- 1982 سے نارمن فائنل اور سیمی فائنلز میں جہانگیر سے ہارتے چلے آ رہے تھے مگر انہیں یقین تھا کہ ایک دن تو آئے گا جو جہانگیر کا برا دن ہوگا- ان کے صبر کا پھل آخر انہیں 1986 کے ورلڈ اوپن فائنل میں ملا- اگلے دن کی شہہ سرخیاں راس نارمن کی فتح کی نہیں بلکہ جہانگیر خان کی شکست کی تھیں- مگر اس کے بعد مزید آٹھ ماہ جہانگیر کو پچاس سے زائد میچز میں پھر کوئی ہرا نہ پایا- یوں چھ سال سے زاید عرصے میں چھ سو سے زاید کامیابیاں سمیٹنے والے جہانگیر کو اپنا سب سے طاقتور حریف 1986 میں ملا….ایک اور پاکستانی جان شیر خان کی صورت میں-

جان شیر کی کوچنگ قمر زمان نے کی تھی جن کے کیرئر کا خاتمہ جہانگیر کے ہاتھوں ہوا تھا- جان شیر نے اپنی نگاہ ٹائٹلز پر نہیں جہانگیر خان پر رکھی تھی, انہیں علم تھا کہ اگر وہ جہانگیر کو ہرا دیتے ہیں تو انہیں روکنے والا پھر کوئی اور دنیائے سکواش میں نہیں ہوسکتا- چند ابتدائی انکاؤنٹرز میں شکست کے بعد بالآخر ستمبر 1987 میں جہانگیر کو زیر کرنے کے بعد جان شیر اگلے آٹھ مقابلے ان سے لگاتار جیتنے میں کامیاب رہے- ایک بار پھر جہانگیر نے خود کو جہانگیر ثابت کیا اور اس سے اگلے پندرہ باہمی مقابلوں میں سے گیارہ جیت لئے-

پاکستانیوں کیلئے یہ win win سچویشن تھی, دونوں میں سے جو بھی جیتے فتح پاکستان کی مگر جب دونوں مدمقابل ہوتے تھے تو عوام کی تمام تر ہمدردیاں جہانگیر خان کے ساتھ ہوا کرتی تھیں- یہاں تک کہ جان شیر کو باقاعدہ شکوہ کرنا پڑا کہ لوگ چاہتے ہیں کہ وہ فائنل میں جہانگیر سے ہار جایا کریں-

ان دونوں کے درمیان یہ مسابقت جاری رہی, 1993 میں جہانگیر خان نے پاکستان کو ورلڈ ٹیم سکواش چیمپئن شپ میں فتح دلانے کے بعد تیس سال کی عمر میں ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا-

اپنے شاندار کیرئر میں جہانگیر خان کو کم عمر ترین ورلڈ چیمپئن, بغیر کوئی گیم ہارے ورلڈ چیمپئن شپ جیتنے, مسلسل 555 میچ جیتنے, دس مرتبہ برٹش اوپن اور چھ مرتبہ ورلڈ اوپن جیتنے کا اعزاز حاصل ہے- تاریخ کا سب سے طویل سکواش میچ بھی انہی کا تھا جس کا ریکارڈ 2014 میں ٹوٹ گیا-

ریٹائرمنٹ کے بعد جہانگیر ورلڈ سکواش پلئیرز ایسوسی ایشن کے صدر, ورلڈ سکواش فیڈریشن کے نائب صدر اور دو مرتبہ صدر رہ چکے ہیں-

جس وقت عزت, شہرت اور دولت جہانگیر پہ مون سون کی بارش کی طرح برس رہی تھیں, انہوں نے خود کو ایک عظیم ترین کھلاڑی ہی نہیں ایک پرفیکٹ جینٹلمین, ایک عظیم انسان اور ایک سچا با عمل مسلمان بھی ثابت کیا- بغیر تنازعات میں الجھے, بغیر اپنی فتوحات کی تشہیر یا انہیں کیش کرانے کی کوشش کئے, بغیر سکینڈلز میں انوالو ہوئے ایک صاف ستھرے, بے داغ سپورٹسمین کے طور پر اب بھی وہ ساری دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں-

نازیہ حسن اور جہانگیر خان دونوں بہت اچھے دوست تھے اور بہت لوگوں کی خواہش تھی کہ دونوں ازدواجی بندھن میں بندھ جائیں, جہانگیر نے یہاں بھی مشرقی روایات کی پاسداری کی اور شادی اپنے خاندان کی پسند سے کی- اپنی اہلیہ اور دو بچوں کے ساتھ وہ کراچی میں ایک خوشگوار زندگی گزار رہے ہیں-

بیسویں صدی کے اختتام پر سو عظیم کھلاڑیوں کی جتنی بھی لسٹس بنیں…جہانگیر خان کا نام ان سب میں شامل تھا- ان کے اپنے الفاظ میں….

“I believe my story can offer hope to millions of people all over the world who are poor, bereaved or sick. At different times, I have been all three”.

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے