کمزور معیشت آزاد خارجہ پالیسی کی راہ میں رکاوٹ
Reading Time: 3 minutesمحمد اشفاق ۔ تجزیہ کار
کمزور معیشت آزاد خارجہ پالیسی کی راہ میں پہلی اور بڑی رکاوٹ ہے۔ آزاد خارجہ پالیسی کے راستے کی دوسری بڑی رکاوٹ وہ ادارہ ہے جسے سعودی اپنا وننگ ہارس سمجھتے ہیں اور امریکی اپنا غلام۔
آزاد خارجہ پالیسی کے راستے کی تیسری بڑی رکاوٹ ایک کمزور اور عوامی حمایت سے محروم حکومت ہے جو اپنی بقا کیلئے اندرونی و بیرونی طاقتوں کی خفیہ حمایت کی محتاج ہو۔
ہمارے معاملے میں یہ تینوں عوامل یکجا ہیں۔
سعودی عرب اور یو اے ای سے اربوں ڈالر کا قرضہ پکڑ کر ہم نے دونوں ممالک سے پانچ ارب ڈالر اپنے اکاؤنٹ میں رکھوا رکھے۔ معیشت ماشاءاللہ اتنی مستحکم ہو چکی ہے کہ اب اس سہولت کو رول اوور کرنے کی بجائے ہم اسے قرضے میں تبدیل کرنے کی درخواست لئے پھر رہے ہیں۔ اپنے منہ میں نوالہ ڈالنے والے ہاتھ پر آپ دانت کیسے گاڑ سکتے ہیں۔
سعودیوں کے وننگ ہارس اور امریکیوں کے غلاموں کا یہ عالم ہے کہ خلیجی حکمرانوں کے ماتھے کی ایک شکن ان کا کلیجہ پاش پاش کرنے کو کافی ہوتی ہے- جناب چیف صاحب فورا متحدہ عرب امارات پہنچے، جہاں انہیں دورہ ایران پر ڈی بریف کیا گیا اور ناراضی ظاہر کی گئی۔ کوالالمپور کانفرنس پر حضرت نے خان صاحب کے کان کھینچنے کا وعدہ کیا۔ ایک دن نمبر ون کے چیف کو ریاض بھجوایا تو دوسرے روز پیچھے پیچھے شاہ محمود قریشی کو۔ محمد بن سلمان اب عملی طور پر خان صاحب کی حرکتوں سے بیزار ہوا پھرتا ہے۔ تین دن کی منت و سماجت کے بعد ملاقات کا موقع دیا تو خان صاحب کی جان میں جان آئی۔
چونکہ ایماندار ہینڈسم کی نوکری چیف صاحب کی مرہون منت ہے اور چیف صاحب تو وہ پکے مسلمان ہیں جن کا قبلہ اول مکہ تو قبلہ آخر ریاض ہے۔ اس لیے خان صاحب جھکی نگاہوں کے ساتھ شہزادے کے دربار میں پیش ہوئے۔ اپنی حماقت پر شرمندگی کا اظہار کیا، شہزادے نے شفقت فرمائی اور ایئرپورٹ تک خود چھوڑنے آیا۔
ایران، ترکی اور ملائیشیا وہ تین ممالک ہیں جنہوں نے ڈٹ کر کشمیر کے معاملے پر پاکستان کا ساتھ دیا۔ کشمیریوں پر ہونے والے مظالم پر آواز اٹھائی۔ یہیں سے ان تینوں حکومتوں کو او آئی سی کے عضو معطل ہونے کا احساس ہوا، پاکستان کے ساتھ مل کر نئے اسلامی بلاک کی تشکیل کا قدم اٹھانا چاہا۔
خان صاحب جس طرح ملکی معیشت کو انڈوں اور کٹوں سے چار چاند لگانا چاہتے ہیں اسی طرح امت مسلمہ کے جملہ مسائل کے حل اور عظمت رفتہ کی بحالی کیلئے جناب نے ٹی وی چینل کھولنا تجویز فرمایا۔ مہاتیر محمد اور طیب ایردوان نے سمجھا کہ بندہ احمق ضرور ہے مگر مخلص ہے۔ اسے سمٹ میں شرکت کی دعوت دے ڈالی۔ آج ان پر واضح ہو گیا کہ بندہ نہ صرف بڑبولا، احمق اور خود غرض ہے بلکہ بلا کا بزدل بھی۔
عمران خان نے سعودی شہزادے سے ملاقات کے بعد فون کال کر کے ملائیشیا بات کی تو جواب میں مہاتیر کے دو الفاظ پہ غور فرمائیں ” آئی انڈرسٹینڈ”۔
وہ جنہوں نے ہمارے زخموں پر نمک چھڑکنے کیلئے سشما سوراج کو او آئی سی کے اجلاس میں مہمان خصوصی بنایا۔ وہ جنہوں نے مودی کو اعلیٰ ترین سرکاری اعزازات سے نوازا۔ وہ جنہوں نے چند سوکھی روٹیاں ہمارے کشکول میں پھینک کر بھارت سے اربوں ڈالرز کے معاہدے کئے۔ وہ جنہوں نے ہمیں موتمر عالم اسلامی یا آرگنائزیشن آف اسلامک کنٹریز کا ایک اجلاس تک بلانے کی اجازت نہ دی۔
آج ان کی خاطر ہم نے انہیں ٹھکرا دیا جنہوں نے ڈٹ کر ببانگ دہل ہمارا ساتھ دیا تھا۔ جنہوں نے کشمیر کی خاطر بھارت سے تجارت تک داؤ پر لگا دی تھی۔ جن کے ووٹ نے فیٹف میں ہمیں بلیک لسٹ ہونے سے بچایا۔
اس بے حکومت کے پلے اب کچھ نہیں رہ گیا۔ خان صاحب بانس پر چڑھ کر خود کو عالم چنا تصور کرتے ہیں۔ ڈریں اس وقت سے جب نہ بانس رہے گا، نہ بانسری بجے گی۔