کالم

قرنطینہ میں بوریت کا حل

اپریل 18, 2020 2 min

قرنطینہ میں بوریت کا حل

Reading Time: 2 minutes

سال نو کی شروعات ان گنت امیدوں سے کیں، ٹھیک ٹھاک قسم کی ریزولیوشنز بھی بنا لییں، جنوری تو سستی کی نذر ہوا اور فروری میں پلان کو عملی شکل دینے کا تہیہ ہی کیا تھا کہ مارچ آیا اور ساتھ کورونا کی وبا ۔ پاکستان میں کرونا کون لایا اور کیسے پھیلا، فیس بک پر شروع ہونے والی یہ بحث اب لاک ڈاؤن کیوں اور کیسے پر جاری ہے۔

"یار جلدی پہنچ میں چوک میں تیرا انتظارکر رہا ہوں” "اس سال تو ہنزہ، سکردو، نلتر، گلگت سب ایک ہی ٹور میں دیکھیں گے” والے اور”امی کیا ہو گیا ہے ابھی دس ہی تو بجے ہیں گھر آتو گیا ہوں ” والے سبھی گھر بیٹھ گئے۔ 2020 میں ہنی مون کے لیے ملک سے باہر کی بکنگ کروانے والی قوم کا بھی بیڑہ غرق ہو گیا۔
اب سب گھر میں بند ہیں، کریں بھی تو کیا کریں۔ نہ کبھی گھر بیٹھ کر دیکھا کہ "گھر والے بھی اچھے لوگ ہیں” نہ ہی کبھی یہ جاننے کی کوشیش کی کہ گھریلو زندگی ہوتی کیسی ہے۔ جس کی پوسٹ پڑھی وہ بوریت کا رونا ہی روتا نظر آیا۔ یار بور ہو رہا ہوں کیا کروں ؟ یار کوئی گیم بتاو، یار کوئی سیزن بتاو، یار کوئی ٹک ٹاک بنا لیتے ہیں یار دیکھ کیا دن آگئے میں نے تجھے ایک گھنٹے کی کال کر لی ، یار آج کل تو سوشل میڈیا بھی بور ہی ہوگیا ہے۔

سوال تو یہ ہے کیا کسی نے اس لاک ڈاون میں یہ سوچا ہے کہ ان کی ماں، بہن اور بیٹیاں گھر میں کیا کرتی ہیں؟ ان کے پاس اپنی بوریت دور کرنے کا کیا طریقہ ہے۔ ہم جو ان پر زندگی کے دروازے تنگ کیے بیٹھے ہیں۔ ان کے دن رات کیسے گزرتے ہیں۔ ڈاکٹر، انجینئر، پی ایچ ڈی لڑکیوں کو گھروں میں بٹھا کر وقت ضائع کیا جا رہا ہے ، صرف اس لئے کے سسرال والے اور خاوند جاب کی اجازت نہیں دیتے یا باپ بیٹی کی کمائی کھانے کے طعنے سننے سے بچنے کے لئے بیٹی کو گھر بٹھا کر رکھتا ہے۔ لڑکی کو پڑھایا اس لئے جاتا ہے کہ اچھی جگہ شادی ہو جائے۔ ہنر مند بھی ہے تو کیا ہوا گھر ہنر سے چلا لے کافی ہے۔ کیا ہم نے اس بوریت میں یہ سوچا ہے کہ ان ہنر مند خواتین کو ہم کس طرح ضائع کر رہے ہیں۔

پاکستان کی پچاس فیصد آبادی خواتین پر مشتمل ہے جو پیدائش سے لے کر مرتے دم تک گھر پر بور ہوتی رہتی ہے۔ گھر کی چار دیواری میں خدمت گزاری میں زندگی گزار دیتی ہے اور ستم تو یہ ان کے لیے یہی زندگی ہے ۔ کچھ کو تو یہ بھی نہیں پتا کہ بوریت بھی کوئی چیز ہے کیوں کہ جاب، اووٹنگ، سیر تو کبھی ان کی زندگی کا حصہ رہے ہی نہیں یا ایسے کہہ لیں کبھی رہنے نہیں دیے گئے۔

خدارا وقت ملا ہے تو ان کی بوریت کا بھی حل نکالیں۔ معاشرے کے اس کارآمد طبقے کو ضائع ہونے سے بچائیں۔ دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک میں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں اور برابر اجرت کی بھی ڈیمانڈ کرتی ہیں لیکن ہم تو اپنی خواتین سے یہ شعور بھی چھین چکے ہیں۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے