کالم

اُجڑے چمن کا مالی

اپریل 27, 2020 3 min

اُجڑے چمن کا مالی

Reading Time: 3 minutes

مولانا طارق جمیل حسب معمول ٹی وی سکرینوں پر نمودار ہوئے اور پھر جذبات کی رو میں ایسے بہتے چلے گئے کہ نہ ھاتھ باگ پر تھا نہ پاؤں رکاب میں۔
کیونکہ وزیراعظم عمران خان سامنے تھے اور مولانا کے مخاطب بھی وہ تھے۔ مولانا کے جذبات کا سمندر ٹھاٹیں مار رھا تھا۔

لیکن ایسے مواقع پر مولانا کلمہ حق بیان کرنےسے کہاں چوکتے ہیں ۔اس لیے وزیراعظم جناب عمران خان کے منہ پر اُنہیں کہہ دیا کہ اس ملک میں واحد ایماندار اور خوف خدا رکھنے والے آدمی صرف آپ ہی ہیں۔

شدت جذبات سے مغلوب مولانا نے میڈیا اور عوام تک کو بھی جھوٹا کہہ ڈالا۔
اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے ایک ٹی وی چینل کے مالک کا قصہ بھی لے بیٹھے کہ میرا چینل تو بند ہو سکتا ہے لیکن جھوٹ ختم نہیں ہو سکتا (تاہم چینل اور اس کے مالک کا نام لینے سے گریز کیا کیونکہ میڈیا کے ساتھ الجھنا مولانا کی پالیسی نہیں) کچھ دیر بعد ٹی وی چینلوں سے وابستہ اینکرز نے احتجاج کرنا اور شور مچانا شروع کیا تو مو لا نا صاحب نے اپنی مشہور زمانہ حق پرستی میں ترمیم کرتے ہوئے فورًا معافی مانگی لیکن یہ معافی صرف میڈیا تک محدود تھی یعنی عوام پر دیا گیا کذب بیانی کا فتویٰ ابھی تک قائم ہے کیونکہ عوام کی اوقات ہی کیا ہے۔

شنید ہے کہ مولانا کی حق پرستی یہاں قائم و دائم رہے گی بشرطیکہ ملک کے واحد ایماندار یا کسی دوسرے تگڑے ایماندار کا اشارہ آبرو نہ ہو۔

مولانا کو عمومی طور پر فائیو سٹار مولانا یا لگثری عالم دین سمجھا جاتا ہے کیونکہ وہ لیموزین گاڑی اور گلہری کی مانند غریب علاقوں اور لوگوں میں کبھی دکھائی نہیں آتے۔

وہ تو بیچ میں کورونا نے رولا ڈالا ورنہ مولانا طارق جمیل ابھی تک لندن روم، ھیگ ، برلن اور نیویارک میں کثرت سے حوریں بانٹ کر واپس آچکے ہوتے بلکہ دوبارہ روانگی کی تیاری اور حوروں کی پیکنگ میں مصروف ہوتے۔ اس دوران چند فلمی حسیناؤں اور ماڈل گرلز پر توجہ دے کر دنیا کے ساتھ ساتھ ان کی آخرت بھی سنوار چکے ہوتے بلکہ گھریلو معاملات تک کو بھی سلجھا چکے ہوتے کیونکہ وینا ملک اور اس کے شوہر کے درمیان روز روز جھگڑے اور مولانا کی مسلسل مداخلت نے انہیں اس معاملے میں بھی تجربے اور حکمت سے سرفراز کیا ہے۔
پرآشوب دنوں میں جب مولانا کی رندھی ہوئی آواز اور سولہ سنگھار سے مزین ویناملک کے آنسو برابر ٹی وی سکرینوں پر دکھائی دیتے اور ہم پر رقت طاری کرتے تو انہی دنوں ایک بد بخت نے لکھا کہ ایک معصوم اور دردمند ویناملک کا گھر واقعی بچانا ہو تو طارق جمیل کو فوری طور پر معاملے سے روک دیا جائے۔

ان بد تمیز اور سلیقے سے عاری لوگوں کو کیا معلوم کہ مولاناطارق جمیل کا مقام و مرتبہ کیا ہے کیونکہ یہ لوگ نہ عمران خان سے ملے ، نہ نواز شریف سے، نہ جنرل مشرف سے ، نہ ویناملک سے نہ اداکار عامر خان سے اور نہ ھی بڑے بڑے کاروباری حضرات سے جو انھیں مولانا کے کمالات اور کرامات کے بارے میں بتا سکیں۔

ایک دوست بتا رہے تھے کہ مولانا انگلینڈ تشریف لائے اور شہر کے ایک ہال میں سینکڑوں لوگوں کو انسانیت ،محبت اور عاجزی کا درس دیتے ہوئے خود بھی گریہ کیا اور مخاطبین سے بھی ایسا کروایا لیکن جوں ہی وعظ ختم ہوا تو کھانے اور لوگوں سے ملنے کا پروگرام ہونے کے باوجود بھی مولانا طارق جمیل لوگوں سے ملے بغیر انیل مسرت اور چند دوسرے صاحب ثروت معتقدین کے ھمراہ کہیں اورکھسک گئے۔ دوست بتاتے ہیں کہ تب گریہ گالیوں میں بدل گیا تھا۔

ایک ستم ظریف دوست کا کہنا ہے کہ مولانا کی تقاریر سے کئی سو فٹ لمبی حوروں اور ان کی قاتل غمزہ و غشوۂ اور انداز و ادا کے ساتھ قیامت کے دن میوزک کنسرٹ (مولانا کے بقول انسانوں اور فرشتوں کے بعد اللہ تعالٰی گانا گائیں گے ) نکال دئیے جائیں تو باقی صرف ایک اداکارانہ گریہ رہ جاتا ہے یا ایک نامعقول خوشامد لیکن اس احسان فراموش قوم کو کیا معلوم کہ اس اُجڑے چمن کو تو یہی مالی ہی سینجتا چلا آرہا ہے۔

کرکٹ سے شوبز اور امراء سے ایوان اقتدار تک کا بیڑہ حضرت ایک مدت سے اکیلے کھینچ رھے ہیں اس لیے لازم ھے کہ غریب لوگوں کی ذمہ داری کوئی اور ہی اُٹھائے ورنہ مولانا ہمارے اس دوست کی مانند نسخہ تجویز کرسکتا ہے جو ہر مسئلے کا حل اور غربت کا خاتمہ صرف کمیونزم میں ڈھونڈ کر ہمارے ساتھ لمبی لمبی بحثیں کرتا رہتا۔

روس کے انہدام اور کمیونزم کے خاتمے کے بعد ہم انہیں چھیڑتے اور غصہ دلاتے رہتے ایک دن ایک ھوٹل میں دور سے آتے دیکھ کر میری شرارت کا اندازہ لگایا اور موڈ بنا کر مجھے دیکھتا رھا میں نے قریب پہنچ کر حسب توقع پوچھا کہ یار اب ان غریب لوگوں کا کیا بنے گا؟

دوست نے سگریٹ ایک طرف پھینکا اور دھواں ہوا میں چھوڑتے ہوئے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر غصے میں بلند آواز سے کہا اب غریب لوگوں پر مچھر کی طرح سپرے کرکے انہیں ختم کرنا پڑے گا، میرے پاس تو یہی نسخہ ھے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے