کالم

صرف ساگ پر گزارہ کرنے والی فیملی

اپریل 27, 2020 3 min

صرف ساگ پر گزارہ کرنے والی فیملی

Reading Time: 3 minutes

غربت اور بے کسی کی کئی خوفناک شکلیں دیکھی ہیں لیکن کبھی کبھی انسان لرز کر رہ جاتا ھے- ھم آج کل راولپنڈی کے جس ایریا میں رھائش پزیر ھیں، وھاں لوگوں کے حالات جان کر بندہ پریشان ھو جاتا ھے۔ بیگم باقاعدگی سے میرے لیے ان صدمات کا بندوبست کرتی رھتی ھے۔ کورونا لاک ڈاوون کے بعد بھی وہ مسلسل پیچھے پڑی رہیں کہ فلاں اور فلاں اور فلاں فیملی کے یہ یہ حالات ھیں اور مجھے لازمی ان کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔ ھم مقدور بھر اپنی کوشش کرتے ھیں، قریبی دوستوں اور رشتہ داروں سے بھی پیسے اکٹھے کرتے ھیں لیکن اس وبا نے تو ہر بندے کو اجاڑ دیا ھے لہذآ کئی ڈونرز شاید خود مشکلات کا شکار ھوں تو اس وجہ سے بیگم کے مسلسل اصرار کے باوجود مجھ سے ہلا نہیں گیا۔

اللہ کا کرنا ایسا ھوا کہ تین چار روز قبل قابل احترام دوست اور سینئیر صحافی احسان حقانی صاحب نے میری خواہش پر اسلام آباد میں رہائش پزیر دوستوں کے ایک گروپ میں ایڈ کیا- پہلا مسیج یہ آیا کہ گروپ کے دوستوں نے راشن کے کچھ پیکیجز کا انتظام کیا ھے لہذا کسی کو ضروت مند سفید پوش لوگوں کا علم ھو تو ان کی مدد کی جائے- بیگم کے سامنے ذکر کیا تو وہ تڑپ اٹھیں، کہنے لگیں، پاس ھی فلاں فیملی کے حالات بہت خراب ھیں، کمانے والا ایک ھی بندہ ھے اور وہ بھی گردوں کا مریض ھے جبکہ اب کورونا کی وجہ سے بے روزگار بھی ھے۔

کہنے لگیں، سرکاری امدادوں کے پیچھے تو آپ نہیں بھاگ سکتے لیکن دوستوں کو تو کہہ سکتے ھیں۔ میں نے تفصیلات گروپ کے دوست سے شئیر کیں تو اگلے دن ان کی کال آئی کہ مجھے ٹوٹل کتنے پیکیجز چاھئیں۔ عرض کیا، ھمارے ایریا میں تو سب کے حالات خراب ھیں لیکن چلیں پانچ پیکیجز دے دیں- محلے کے ایک دوست کو ساتھ لے کر بیگم کی جانب سے مارک کی گئی فیمیلیز تک سامان پہنچایا- سب سے آخر میں اس گھر گئے تو دیکھا کہ سامان وصول کرنے کیلئے کئی چھوٹی چھوٹی بچیاں اور ایک کمزور سا لڑکا باھر آیا- گھر واپس آ کر بیگم سے تذکرہ کیا تو اس نے تفصیل بیان کی- کہنے لگیں، وھی ایک لڑکا گھر کا سارا خرچہ اٹھاتا ھے، ضعیف والدین ھیں، نو بہنیں ھیں اور ایک عدد بیگم، بچہ اور بچی، اور کرائے کا مکان- میں نے کہا، اف خدایا، تو یہ لوگ کس طرح گزارہ کر رھے ھیں پھر۔ کیسا گزارہ۔

بیگم بتانے لگیں، دو ماہ سے تو میں دیکھ رھی ھوں کہ ساگ کھا رھے ھیں، اور وہ بھی بازار سے خرید کر نہیں بلکہ وہ بزرگ خاتون روز آئی بارہ جاکر کھیتوں سے ساگ جمع کرتی ھیں اور ابال کر بچیوں کو کھلاتی ھیں- میرا تو روز ساگ کھانے کا سوچ کر کلیجہ ھی پھٹ گیا، چیخ کر کہا، تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا۔

جواب میں بیگم نے بھی غصے میں جواب دیا کہ وہ تو چھ مہینے سے کہتی رھی ھیں کہ اس فیملی کے لیے کچھ کرنا چاھیے لیکن میرا دھیان نہیں جاتا- میری تب سے جو کیفیت ھے، وہ بیان نہیں کر سکتا لیکن بیگم سے سوال کیا کہ اسے کیسے پتہ چلا کہ وہ لوگ ساگ کھا کر گزارہ کر رھے ھیں کیوں کہ اس گفتگو کے دوران بیگم نے بتایا کہ پردہ دار لوگ ھیں، نہ کسی سے مانگتے ھیں اور نہ راشن کے پیچھے بھاگ سکتے ھیں۔

بیگم نے بتایا کہ چھ آٹھ ماہ قبل ھی اس فیملی کے ساتھ ان کا تعلق بنا تو اس بزرگ مائی نے ساگ بھیجا- پھر چھ سات دن مزید ساگ بھیجا- ان دنوں ھم نے گھر میں کنسٹرکشن کا کچھ کام کروایا تو سامان تتر بتر ھو گیا- بیگم بتا رھی تھیں کہ سامان دوبارہ سیٹ کرنے کیلئے اس فیملی کی بچیاں ھیلپ کرنے آئیں تو اس نے ان سے پوچھا کہ ان کی والدہ کو شاید ساگ کچھ زیادہ ھی پسند ھے جو روز پکاتی ھیں- کہنے لگیں، بچیوں نے بتایا کہ وہ تو پوری فیملی دو ماہ سے ساگ کھا رھی ھیں۔

کہنے لگیں کہ بچیوں نے بتایا کہ ان کا ویسے بھی ساگ کھانے کو دل نہیں کرتا لیکن مسلسل ساگ کھانے کی وجہ سے ان کے پیٹ میں درد ھونے لگا ھے- میرا تو رنگ اڑ گیا- تب سے اب تک جب بھی یاد آتا ھے، طبیعت بوجھل ھو جاتی ھے- کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ کسی گھر میں یہ نوبت بھی ھو سکتی ھے۔


بیگم کو کہا، لیکن اتنی ساری چھوٹی چھوٹی بچیاں، لگتا ھے مزید بیٹوں کی کوشش میں والدین نے بچیوں کی لائن لگا دی- جی، ایسا ھی لگ رھا، اس نے کہا- میں نے کہا، یار، یہ بھی سوچنے کی بات ھے کہ ایک طرف وسائل نہ ھوں اور دوسری طرف اتنے بچے پیدا کئے جائیں- اس نے تو پہلے کہا، توبہ توبہ، اللہ کے کاموں میں دخل نہیں دینا چاھیے- تھوڑی دیر بعد کہا، آپ ٹھیک کہتے ھیں، انہیں سوچنا چاھیے تھا، لیکن وہ تو ان کا کام تھا، اب ھمارا کام یہ سوچنا ھے کہ ان کے لیے کیا کیا جا سکتا ھے؟

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے