کالم

خان نے ’ایلیٹ کلاس‘ پر تنقید کیوں کی؟

مئی 1, 2020 2 min

خان نے ’ایلیٹ کلاس‘ پر تنقید کیوں کی؟

Reading Time: 2 minutes

احساس پروگرام میں کل 87 کروڑ روپے نقد کی ادائگیاں کی گئی ہیں اور یہ پروگرام اب تقریباً رک گیا ہے۔ میرے ڈرائیور، اس کے تمام رشتے داروں نے اپنے اپنے شناختی کارڈ نمبر بھیجے لیکن ایک سکوت ہے، ثانیہ نشتر نے اس پروگرام سے متعلق ریکارڈ دینے سے انکار کردیا ہے، سیاستدانوں اور سرکاری ملازموں کی لڑائی میں میرا جھکاؤ ہمیشہ سیاستدان کی طرف رہتا ہے کیونکہ سیاستدان عوام کا نمائندہ ہوتا ہے اور اس کے فائدے میں ہوتا ہے کہ وہ عوام کے لیے کچھ کرے اور عمومی طور پر بابو کریسی انہیں قواعد و ضوابط کی بھول بھلیوں میں گم کر دیتی ہے، لیکن نقد رقم کی ادائیگی کا نظریہ ایک انتہائی سنگین نتائج کا حامل سیاسی نظریہ تھا جسے بابو کریسی نے روکنے کی کوشش تو کی لیکن عمران خان نے دو وجوہات کی بنا پر نقد ادائیگی کا فیصلہ کیا (جب کہ مستحقین کے ریکارڈ اور بینک اکاوںٹس بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے توسط سے دستیاب تھے اور اسی طرح یہ رقم موبائل فون اکاوُنٹس کے ذریعے بھی ٹرانسفر کی جاسکتی تھی) ایک وجہ تو سیاسی تھی یعنی وہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ رقم بینظیر کے پروگرام کے حوالے سے جائے اور ان کو اس کا سیاسی فائدہ نہ ہو اور دوسرا ان کا نرگسیت زدہ یہ زعم کہ چونکہ ان پر مالی طور پر ایک صاف ستھری شخصیت ہونے کا ٹھپہ لگا ہوا ہے اس لیے انہیں اس نقد ادائیگی کے کھیل میں تنقید کا نشانہ نہ بنایا جاسکے گا،دوسری طرف انہیں یہ بھی یقین تھا کہ اپوزیشن خصوصی طور پر نون لیگ اور پی پی براستہ اسٹیبلشمنٹ سیز فائر کی پالیسی پر کاربند ہے تو یہ زیادہ پرخطر کام ثابت نہیں ہو گا۔


بظاہر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ انہیں اب یہ احساس ہوگیا ہے کہ یہ آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے۔
اگرچہ یہ بات مختلف ذرائع سے گردش کر رہی تھی کہ عمران خان کو اقتدار میں لانے والوں اور عمران خان کے درمیان لاک ڈاوُن پر واضح اختلافات موجود تھے اور لاک ڈاوُن کا فیصلہ ان پر مسلط کیا گیا تھا لیکن جب عمران خان کو یہ محسوس ہوا کہ لاک ڈاوُن کے فوائد حاصل ہو رہے ہیں تو انہوں نے اس کا کریڈٹ لینے کی کوشش بھی کی، لیکن ان کی نرگسیت زدہ شخصیت کے لئے یہ بات گوارہ نہیں تھی کہ ان کی بات کیسے غلط ثابت ہوسکتی ہے اس لیے اس کشمکش میں وہ اپنی زبان پر قابو نہ رکھ سکے اور گزشتہ رات انہوں نے لاک ڈاوُن کرانے والوں پر کھل کر تنقید کی اور انہیں اشرافیہ کے نام سے پکارا۔


حیرت انگیز طور پر پی ٹی آئی میں بطور جماعت بھی اس معاملے میں ایک واضح تقسیم نظر آئی، اور پی ٹی آئی میں ایک متبادل قیادت بھی ابھرتی نظر آئی،جنرل عمر کے صاحبزادے اس دوران لاک ڈاوُن کے حق میں نظر آئے اور ان کو ایک خاص قسم کا سیاسی موقع فراہم کیا گیا کہ وہ پڑھے لکھے طبقے میں ایک مسیحا نظر آئیں۔

ایک اور تبدیلی جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا وہ عمران خان کا اپنے آپ کو اشرافیہ سے توڑ کر عوام سے جوڑنے کی کوشش ہے، سول ایجنسیاں انہیں عوام میں موجود بے چینی اور معاشی بدحالی کے بارے میں بریف کر رہی ہیں اور لاک ڈاوُن کے بارے میں عوامی نفرت خصوصی طور پر تاجر طبقے میں عدم مقبولیت کی خبریں دے رہی ہیں۔


پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی بار نہیں کہ کسی وزیراعظم نے عوام بمقابلہ بادشاہ گر طبقات میں سے عوام کی طرف کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا ہو، ایسے تمام وزرائے اعظم آج کل کہاں ہوتے ہیں یہ جاننا بھی بہت مشکل نہیں ہے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے