بزرگ افراد کا خیال کیسے رکھیں
Reading Time: 3 minutesوسیم عباس
اقوامِ متحدہ کی 2019 کی جاری کردہ ایک رپورٹ (World Population Ageing 2019) کے مطابق اس وقت دنیا کی کل آبادی میں تقریباً سات سو دو ملین بزرگ افراد ہیں. پاکستان کے شماریات کے مطابق اس وقت کل آبادی کا تقریباً 5 فیصد بزرگ ہیں. چونکہ پاکستان کی 60 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہیں سو ہم کسی سطح پر بزرگوں کے حقوق کا سوچنے کے لیے وقت نہیں رکھتے. ہمارے ہاں عمومی تاثر یہی ہے کہ ایک بزرگ کو تین وقت کی روٹی، سانس کو بحال رکھنے کے لیے چند دوائیں اور سونے کے لیے بستر درکار ہے. اگر آپ پاکستان کے پسماندہ علاقوں کا دورہ کریں تو آپ پہ یہ حقیقت آشکار ہوجائے گی کہ بزرگوں کی ایک بہت بڑی تعداد دو وقتی روٹی اور دواؤں سے محروم ہے۔
اسلام نے بطور دین انسان کی ڈھلتی عمر کے ساتھ حقوق و فرائض کو جس خوبصورتی سے بیان کیا ہے، اُس کی مثال دوسرے ادیان میں موجود نہیں. قرآنِ کریم میں رب تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
ترجمہ :”اور تمہارے پروردگار نے یہ حکم دیا ہے کہ اُس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو. اگر والدین میں سے ایک یا دونوں تمہارے پاس بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو اُنہیں اُف تک نہ کہو، اور نہ اُنہیں جھڑکو، بلکہ اُن سے عزت کے ساتھ بات کیا کرو. (سورۃ الاسراء، آیت ،23)”
قارئین! عزت کا رشتہ احساس کے ساتھ ہے اور احساس کسی چیز کو اُس کے درست وقت پر اہمیت دینا ہے. بزرگوں کو جب آپ وقت دینا شروع کر دیں گے تو آپ اُنہیں سُننا شروع کریں گے اور کسی بھی شخص کو جاننے کے لئے اُس کو سُننا ضروری ہے اور جان جانا ہی اصل مقصد ہے۔
بوڑھے لوگوں کو اگر احساس میں گُوندھا ہوا وقت دے دیں تو یہ اُن کے لیے حقیقی مُسرّت اور آپ کے لیے ایک بیش قیمت نیکی ہے. دورِ جدید کی سب سے بڑی خامی ہی یہ ہے کہ ہمارے پاس اپنوں کیلئے کوئی وقت نہیں.
یہاں پہ اپنے تجربے کو بیان کرنا چاہوں گا کہ اگر آپ اپنے بڑھاپے کو خوبصورت بنانا چاہتے ہیں تو آج اپنے بچوں کو پیسوں سے زیادہ وقت اور احساس دیجئے تاکہ آنے والے وقت میں آپ کے بچے وقت اور احساس کے معنوں کو سمجھتے ہوئے آپ کے بڑھاپے کو خوبصورت بنا دیں۔
اختر انصاری نے خوب کہا تھا:
یادِ ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مُجھ سے حافظہ میرا
نفسیات کے مطابق ایک منٹ میں انسان کے ذہن میں پچاس سوچیں آتی ہیں جو دن کی تقریباً 70،000 بنتی ہیں. بزرگ بندہ مستقبل کو حذف کرتے ہوئے اپنے حال کو کُریدتے ہوئے، ہر چیز کا ذمہ دار اپنے ماضی کو ٹھہراتا ہے. وہ ہمیشہ اگر اور مگر کی کیفیت کے درمیان رہتا ہے. بوڑھوں میں خون کے فشار کی بیماری اسی وجہ سے عام ہے کہ اُن کے پاس سوائے سوچ کے کُچھ رہتا نہیں. اگر ہم ان سوچوں کو اپنے وقت اور بہتر سرگرمی سے بدل دیں تو ہمارے بزرگ ایک صحتمند زندگی گُزار سکتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ ایک بزرگ اور بچے میں کوئی فرق نہیں رہتا ہم بچے کی عادت کو تو بہتر طور پہ سمجھ کے اس کے مطابق اس سے پیش آتے ہیں لیکن بدقسمتی سے بزرگوں کی عادت کو سمجھنا اور بہتر طور پر اُن سے پیش آنا، ہمارا شعار ہی نہیں. لیکن ہم اس مسئلے کو حل کر سکتے ہیں۔ فرض کریں آپ کو دس سال کی منتوں کے بعد بیٹا/بیٹی ملی اور آپ اُس کے ہر آرام کا خود سے بھی بہتر خیال رکھتے ہیں کیونکہ اب وہی آپ کے بڑھاپے کا سہارا ہے۔ اسی طرح سے آپ اپنے والد /والدہ کے خیال کو یقینی بنائیں کیونکہ وہ بھی آپ کے لیے اکلوتے اور آپ کی اُخروی زندگی کی کامیابی کا سہارا ہیں۔