ہسپتالوں میں قومی ہیروز
Reading Time: 3 minutesصحافی نے نوجوان ڈاکٹر کی طرف مائیک بڑھاتے ہوئے پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب کیا آپ کو معلوم ہے کہ قوم آپ لوگوں سے کتنا پیار کرتی ہے؟
نوجوان ڈاکٹر نے ایک مقدس جذبے اور میٹھی معصومیت کے ساتھ جواب دیا کہ خدانخواستہ قوم پیار نہ بھی کرے تو ہم پھر بھی اسی جذبے کے ساتھ کام کرتے رہیں گے کیونکہ یہ ھمارا فرض بھی ہے اور انسانی جذبہ بھی !
تقریبا تین مہینے پہلے احمقانہ فیصلوں اور غیر ذمہ دارنہ طرز عمل کے سبب خون آشام کورونا وائرس کی وبا پہلے ہی سے مشکلات کے شکار ملک پاکستان میں پھوٹ پڑی تو ھمارا واحد سھارا یہی ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل سٹاف ہی تھے، جنہیں ماسک اور سینٹائزر تک دستیاب نہ تھے اور جب ڈیوٹی نبھانے کے واسطے وہ اس کا مطالبہ کرنے لگتے تو عجیب و غریب جمہوری حکومت ان پر ڈنڈے برساتی اور ان کے سر پھاڑتی رہی لیکن آفرین ہے دھرتی کے ان سپوتوں (ھیلتھ ورکرز ) پر جنہوں نے نہ ڈیوٹی سے انکار کیا ، نہ ھسپتالوں کو خالی اور نہ مریضوں کو بے یار و مددگار چھوڑا اور نہ ہی کسی چوک کو دھرنے اور بد تہذیبی کی آماجگاہ بنایا بلکہ اپنا احتجاج مہذب انداز میں ریکارڈ کراتے اور مریضوں کو سنھبالتے رہے۔
میں بہت سے ایسے ڈاکٹروں اور ھیلتھ ورکرز کو جانتا ہوں جنہوں نے اپنی جیبوں سے رقم دے کر چندہ اکھٹا کیا اور ھسپتالوں کے لئے ضروری سامان اور دوائیاں خریدیں ورنہ سوال تو بنتا ہے کہ ابتدائی دنوں میں جب چین چار ملین ڈالر ورلڈ بینک اُنیس کروڑ ڈالر اور ایشین ڈیویپلمنٹ بینک تین سو پچاس ملئین دے چکا تھا تو کیا اس سے فرنٹ لائن پر لڑتے ان عظیم ھیروز کی ضروریات پوری کرنا اوّلین ترجیح نہیں ہونی چاہیے تھی ۔
تاریخ کے ان مشکل ترین دنوں میں یہی ڈاکٹرز پیرا میڈیکس سٹاف ،نرسز ،ٹیکنیشن ، لیب اسسٹنٹ حتٰی کہ وارڈ بوائے اور ایمبولینس ڈرائیور ہی ہیں جو ایک خون آشام منظرنامے میں قوم کے ھیروز اور مسیحا کے روپ میں ایک فاخرانہ کردار کے ساتھ سامنے آ چکے ہیں ۔
ایک ایسے وقت میں جب کسی ھسپتال کے قریب سے گزرنا بھی ”خطرے“ سے خالی نہیں سمجھا جاتا تو وہ یہی وطن کے بیٹے بیٹیاں ہیں جو اپنی جان کی پرواہ کئی بغیر ایک دلیر بانکپن کے ساتھ تاریخ کے مشکل ترین محاذ پر لڑ رہے ہیں ۔
ڈبلیو ایچ او کی ایک رپورٹ کے مطابق آٹھ سو کے قریب ھیلتھ ورکرز ملک بھر میں کورونا وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔ جن میں ڈاکٹرز ، نرسز اور دوسرا سٹاف بھی شامل ہے۔
ان میں سے بعض شھادت کا رُتبہ بھی پا چکے ہیں ، لیکن کسی بھی لمحے پسپائی تو دور کی بات ہے خوف کو بھی اپنے قریب پھٹکنے نہیں دیا ان جراتمند ھیروز نے ذاتی زندگی کو بھی ایک عظیم قربانی پر تج دیا جس کا قصیدہ تاریخ دیر تک پڑھتا رھے گا۔
ڈاکٹر حمداللہ نوجوان سرجن ہیں ان کی اھلیہ فاطمہ بھی ڈاکٹر ہیں ، ڈاکٹر حمداللہ میرے دوست کم اور چھوٹے بھائی زیادہ ہیں اس لئے کوئی شام بمشکل ایک دوسرے کے بغیر گزرتی لیکن پچھلے دو ماہ سے ملنا تو درکنار فون پر رابطہ تک مشکل ہو گیا ہے کیونکہ مجھے ان کی شدید مصروفیت کا علم ہے ۔
اگلے دن ڈاکٹر فاطمہ سے فون پر رابطہ ہوا تو میں نے ان کی اور حمداللہ کی خیریت پوچھی تو اس نے ھنستے ہوئے کہا بھائی میں تو خیریت سے ہوں لیکن اگر حمداللہ سے آپ کا رابطہ ہوا تو میری طرف سے بھی پوچھ لیں ، یہ بظاہر تو ایک مذاق ہی تھا لیکن اس کے عقب میں موجود وہ عظیم قربانی ہے جس نے ہمیں کام چور قوم کے روایتی طعنے سے نجات دلا دی !
آفرین ہے صحت کے شعبے سے وابستی ہر اُس ھیلتھ ورکر پر جہنوں نی مشکل دنوں میں ہماری گردنوں کو جھکنے سے بچائے رکھا ۔
پاک فوج کے ساتھ ہمارا رومان اور محبت کا رشتہ پہلے روز ہی سے ہے اور وہ یقینًا اس کے مستحق بھی ہیں کیونکہ ایک حوالے سے ان کی قربانی کو نظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا لیکن ایسا بھی نہیں کہ دھرتی ماں ایک اور حوالے سے ھیروز جننے سے قاصر ہو گئی ھے.
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی
ابھی ابھی ایک دوست نے فون پر بتایا کہ ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن خیبر پختون خوا کے صوبائی صدر ڈاکٹر رضوان کنڈی بھی کورونا وائرس کا شکار ہوگئے ہیں تو میں دیر تک اس جوان رعنا کو سوچتا رہا ،جو کبھی اپنے حق کے لئے لڑتا ہے اور کبھی دوسروں کی زندگی کے لیے۔
لھولھان بھی ہوں یار بھی شھید ہوئے
کہنا یہی ہے کہ کورونا کی وباء یقینًا انسانی تاریخ کا سب سے بڑا اور خوفناک المیہ ہے جس پر کبھی نہ کبھی تو حیرت انگیز انسانی ذھن قابو پالے گی لیکن اسی المیے کے منظرنامے سے بحیثیت قوم ہمارے سامنے ان چار پانچ لاکھ جانبازوں ( ھیلتھ ورکرز) کی صف بھی کھڑی ہوگئ جو نہ صرف ہمارے اعتماد کے مظہر بنے بلکہ انہیں دیکھ دیکھ کر ہمارے سینے چوڑے اور سر مزید اونچے ہوتے جائیں گے۔