کھانسی کو کینسر ثابت نہیں کیا جا سکتا
Reading Time: 3 minutesپاکستان میں اس وقت کرونا سے بھی بڑی ایمرجنسی سیاسی پولرائزیشن کو کم کرنا ہے کیونکہ کرونا تو ابھی لوگوں کو لگنا ہے جبکہ نفرت کے ٹیکے لوگوں کو لگ بھی چکے اور اثر بھی کر چکے، سیاست فرقہ بن گئی جس میں اپنا مسلک درست اور دوسروں کا غلط ہوتا ہے، درمیانی کیفیت ہے ہی نہیں، بالکل صحیح اور بالکل غلط کے درمیان کا نقطہ نظر ہے ہی نہیں، نفرت اور پولرائزیشن کا زہر قصداً پھیلایا گیا ہے، ولن تخلیق کیے گئے اور ان پر گوبر تھوپنے کے لیے کرائے کے لوگ بھرتی کیے گئے، روزانہ ٹاک شوز میں نفرت کے انجیکشنز لگائے گئے، بے بنیاد پروپیگنڈا کیا گیا اور اسے کسی عدالت میں ثابت نہیں کیا گیا۔
حال ہی کی مثالیں لے لیں کہ جب نواز شریف کو ایک ولن کے طور پر پورٹریٹ کرنا تھا تو سب سے زود اثر نفرت کا ٹیکہ مذہب کا لگایا اور الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے اسمبلی حلف نامے میں سے ایک جملہ نکال دیا حالانکہ شناختی کارڈ سے لے کر پاسپورٹ تک اور کاغذات نامزدگی تک اسی شق پر دستخط کئے جاتے رہے، لیکن سب جانتے تھے کہ یہ وہ حساس معاملہ ہے جس سے نفرت کو اپنی مرضی کے مطابق ابھارا جاسکتا ہے، اور مطلوبہ نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
اور پھر کیمرے کی آنکھوں نے دیکھا کہ اس وقت کے وزیراعظم پر جوتا اچھالا گیا اور کتنے دلوں میں اس کی ٹھنڈک محسوس کی گئی؟احسن اقبال پر گولی چلی اور اس پر رقص کئے گئے۔
زیادہ دن پرانی بات نہیں کہ بلاول اور عمران خان نے ملک کے وزیراعظم کو مودی کا یار کہا اور طاہرالقادری نے ان کی شوگر ملوں سے بھارتی جاسوس برآمد ہونے کا الزام لگایا، کس لئے؟ وہ جانتے تھے مذہب کے بعد حب الوطنی کا پیٹرول جلتی ہوئی آگ پر ڈالا جائے تو آگ کی لپٹیں بہت اونچی ہوجاتی ہیں، عدالتیں کہاں تھیں جہاں یہ ثبوت لے جائے جاتے اور اگر کوئی ملکی مفاد کے خلاف کام کر رہا تھا اس کا ٹرائل کرتے، لیکن ایسی کوئی چیز ہوتی تو عدالت جاتی، کیسے معید پیرزادہ، مبشر لقمان، صابر شاکر کو یہ اشارہ دیا گیا کہ وہ روز نئے الزامات لے کر سر شام ٹی وی سکرینوں پر بیٹھ جائیں، اور کسی الزام کو عدالت میں ثابت نہ کریں بس میڈیا ٹرائل کریں۔
تیسرا الزام کرپشن کا ہے جو ایوب دور سے شروع ہوا اور بس لگتا ہی گیا، کسی عدالت میں کوئی ثبوت نہیں، اسحاق خان زرداری کو پہلے جیل ڈالے اور پھرجیل میں حلف اٹھوا دے، کوئی نہیں پوچھتا، کتنے الزام لگائے عمران خان نے جلسوں میں کروڑہا ارب روپے کی کرپشن کے نواز شریف اور شہباز شریف پر، ان کے فرنٹ مین کے نام جلسوں میں لئے، قطر گیس معاہدوں کو دو نمبر کہا اور پھر عدالت میں الزام کیا لگایا؟ تیس سال پرانی مفروضہ کرپشن کا، جس کا نہ کوئی گواہ نہ ثبوت، تیس سال گذرنے کے بعد منی ٹریل کس سے مانگی جاتی ہے؟وہ بھی مانگی، کوئی نیا اور تازہ کیس کیوں نہیں بنایا؟
معید پیرزادہ نے ٹی وی پر الزام لگایا کہ ابراج گروپ کے سی ای او نے نواز شریف کو دو ارب روپے دئیے، ابراج گروپ کا سی ای او گرفتار ہے، عمران خان کا ذاتی دوست ہے، وہ ثبوت کیوں نہیں دے دیتا؟ کیا کوئی ہے جو معید پیرزادہ سے یہ کہے کہ وہ اس الزام کو عدالت میں ثابت کرے؟ کیونکہ اصل مقصد حاصل ہوچکا ہے، نفرت کے انجیکشن لگانے کا مقصد اور دولے شاہ کے چوہے پیدا کرنے کا مقصد جو بنا سوچے سمجھے ان الزامات پر یقین کرلیں۔
شام کو ایک دو ٹکے کا اینکر ٹی وی سکرین پر بیٹھتا ہے اور کرپشن کا الزام عائد کر دیتا ہے، او بھائی یہاں پیپرا رولز ہیں، آڈیٹر جنرل ہے، یہاں پبلک اکاوُنٹس کمیٹی ہے، وہ سب کچھ ڈرامہ ہے؟ میں یہ نہیں کہتا کہ کرپشن ہوتی نہیں، لیکن اس کا جو حجم بتایا جاتا ہے وہ ناممکن ہے، اتنا فسکل سپیس یہاں کبھی رہا ہی نہیں۔
آپ زور دے کر کھانسی کو کینسر ثابت کرتے رہیں تاکہ اپنے سیاسی مخالفین کو بدنام کر سکیں اور کسی عدالت میں ثابت نہ کریں بس نفرت کے انجیکشن لگاتے رہیں تاکہ آپ کی مرضی کے سائز کا ایک ولن تخلیق پا جائے۔
وقت آگیا ہے کہ شہرت خراب کرنے کے قانون کو مضبوط کیا جائے اور الزام لگانے والے کو سات دن کے اندر اپنے دعوے کو ثابت کرنا لازمی قرار دیا جائے ورنہ سرعام معافی مانگی جائے اور آخری صورت میں عائلی کورٹس کی طرح ڈیفیمیشن کی عدالتیں بنائی جائیں جو جلد فیصلہ کریں۔
آپ دیکھیں گے کہ یہ غنڈا نما اینکر کیسے مہذب ہوتے ہیں اور معاشرے میں سے نفرت کم ہوتی ہے اور ہم کم از کم کچھ نکات پر اکٹھے ہوتے ہیں۔