کورونا میں پھنسے سمندر پار پاکستانیوں کا دکھ
Reading Time: 3 minutesکورونا سے ہونے والی بیماری، تکلیف اور اموات اپنی جگہ، لیکن اس وبا کی وجہ سے کچھ لوگوں کے کاروبار بھی چمک اٹھے ہیں اور کچھ کی ذہانت یا حماقت بھی کھل کر سامنے آگئی ہے۔ حکومت پاکستان کے کئی اقدامات بھی نہ صرف سمجھ سے بالاتر ہیں بلکہ لاکھوں پاکستانیوں کے لیے شدید پریشانی اور دکھ کا باعث بنے ہوئے ہیں۔
گزشتہ دنوں دیر سے تعلق رکھنے والے ایک مزدور نے دبئی سے رابطہ کیا۔ اس نے بتایا کہ ’میں عرق النسا کا مریض ہوں۔ ڈاکٹروں نے سرجری تجویز کی ہے۔ ایک مہینے سے پاکستان جانے کی کوشش میں ہوں۔ ہوائی جہاز کا ٹکٹ کورونا کی وجہ سے اب نہ آن لائن دستیاب ہے اور نہ ہی ٹریولنگ ایجنٹس کے پاس۔ آپ کو بذات خود پاکستانی قونصلیٹ جا کر نقد رقم کے بدلے ٹکٹ لینا ہوتاہے۔ روزانہ ہزاروں لوگ قونصلیٹ کے باہر قطاروں میں ذلیل ہوتے ہیں۔ شام کو نامراد واپس لوٹتے ہیں۔ اگلے دن دوبارہ قسمت آزمائی کے لئے جاتے ہیں۔ہاں، اگر آپ پاکستانی دفتر خارجہ میں کسی کو جانتے ہیں تو قونصلیٹ فون کروا کر گھر بیٹھے ٹکٹ حاصل کرسکتے ہیں۔ میں بیمار آدمی ہوں۔ شدید گرمی، روزہ اور کورونا کی صورت حال میں وہاں جا کر قطاروں کی زحمت کیسے اٹھاؤں؟‘
جمعے کو سعودی عرب سے ایک نہایت معزز اور بااثر پاکستانی نے فون پر بتایا کہ ’دو مہینوں سے مکہ مکرمہ میں لاک ڈاؤن کا شکار ہوں۔ سعودی حکومت نے کمال مہربانی سے عمرہ کے لئے آنے والے تمام پاکستانیوں کی پاکستان واپسی کے سفر کا مفت انتظام کیا (جس پر پاکستان کی وزارت مذہبی امور نے خود کو خوب شاباشی دی)۔ لیکن یہاں ملازمت کرنے والے پاکستانی شہری، حکومت پاکستان کی بدانتظامی پر خون کے آنسو رو رہے ہیں۔ عام دنوں میں ہم اپنے دفتر میں بیٹھ کر پی آئی اے کی ریزرویشن بھی کرلیتے تھے اور پیسوں کی ادائیگی بھی کر لیتے تھے۔ کورونا کی وجہ سے حکومت نے ٹکٹ اور سفر کے جدید طریقے ترک کرکے گزشتہ صدی کا طریقہ اپنایا ہے۔ اب آپ کو ٹکٹ خریدنے کے لئے جدہ میں پاکستانی قونصلیٹ جانا پڑتا ہے۔ وہاں دن بھر قطار میں ذلت اٹھائیں۔ شام پانچ بجے قونصلیٹ بند ہوجاتا ہے اور آپ سے کہا جاتا ہے کہ کل تشریف لائیں۔‘
معزز پاکستانی نے بتایا کہ مکہ مکرمہ میں مکمل کرفیو ہے۔ آپ اپنی رہائش سے باہر نکل نہیں سکتے۔ پولیس رتی بھر رعایت نہیں کرتی۔ لیکن اگر آپ کسی نہ کسی طرح گھر سے نکلیں، کسی سعودی ٹیکسی ڈرائیور سے بات چلالیں اور کئی گنا زیادہ پیسے دے کر جدہ پہنچ بھی گئے، تو ایک دن میں ٹکٹ کا حصول ممکن نہیں۔آپ رات کہاں گزاریں گے؟ کیونکہ ہوٹل اور ریستورانوں سمیت تمام پبلک سروسز بند ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ ایک ہی جگہ دس پاکستانی رہتے ہیں۔ تو بھی آپ یہ نہیں کرسکتے کہ کسی ایک آدمی کو باقی لوگوں کے پاسپورٹ اور رقم دے کر ٹکٹ خرید لیں۔ آپ سب کو کونسلیٹ جا کر ذلت کے تمام مراحل سے گزرنا پڑے گا اور اس کے باوجود ٹکٹ کا حصول یقینی نہیں۔
مزید دکھ کی بات یہ ہے پاکستانی دفتر خارجہ نے مبینہ طور پر یہ انتظام کیا ہے کہ امارات اور السعودیہ وغیرہ کے ٹکٹ بھی پاکستانی کونسلیٹ سے ملیں گے اور بہر صورت آپ کو ٹکٹ لینے کے لئے کونسلیٹ کے سامنے قطاروں میں کھڑے ہونا پڑے گا۔اس سے زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ ٹکٹ کی قیمت دوگنی کر دی گئی ہے، لیکن انتظام بد ترین کردیا گیاہے اور ذلت اٹھائے بغیر ٹکٹ کا حصول ناممکن ہے۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اگر عام حالات میں ٹکٹ کے حصول کا یہ گزشتہ صدی والا طریقہ تھا تو کرونا میں آن لائن انتظام کو فروغ دینا چاہئے تھا، لیکن وزارت خارجہ کے بزرجمہروں نے معلوم نہیں کیا سوچ کر آن لائن ٹکٹنگ کا باعزت طریقہ معطل کردیا ہے اور ہر سمندر پار پاکستانی کو ذلیل کرنے کا پکا انتظام کر لیا ہے۔
یاد رہے کہ سعودی عرب میں روزانہ اجرت پر کام کرنے والے پاکستانیوں کی حالت کا تصور کرنا کچھ زیادہ مشکل نہیں۔ تنخواداروں کو بھی تنخواہیں نہیں مل رہیں۔ اس میں حکومت پاکستان غمزدہ سمندر پار پاکستانیوں کی مشکلات کم کرنے کی بجائے ان کے زخموں پر نمک پاشی کا پورا سامان کئے ہوئے ہے۔
میری تمام صحافیوں سے گزارش ہے کہ داخلہ، خارجہ اور شہری ہوابازی کی وزارت سمیت ہر حکومتی وزیر سے اس عجیب انتظام کے بارے میں پوچھے کہ آخر آن لائن ٹکٹ کا پہلے سے چلنے والا انتظام منسوخ کرکے قطاروں والا یہ طریقہ رائج کرنے میں کیا مصلحت ہے؟