شریف فیکٹر کتنا اہم اور کب تک؟
Reading Time: 3 minutesایک دوست نے خورشید ندیم صاحب کو معتوب کیا کہ انہوں نے ناجائز طور پر نواز شریف سے یہ غلط توقعات وابستہ کیں کہ وہ عوام کے حق حکمرانی کے لیے لڑیں گے، گویا نواز شریف کا اصل مقصد اپنے خاندان کی حکمرانی ہے اور ساتھ ہی یہ دعویٰ کیا کہ جمہوریت کی پیٹھ میں سب سے زیادہ خنجر نواز شریف نے ہی گھونپے ہیں۔
اگرچہ اس میں کوئی شبہ نہیں نواز شریف وقتاً فوقتاً بری طرح سے استعمال ہوئے لیکن اس حمام میں بالباس کون ہے؟ بینظیر بھٹو بارہ اکتوبر کو جشن مناتے ہوئے دیکھی گئیں، زرداری صاحب نے بلوچستان اسمبلی میں میمو گیٹ کا بدلہ لیا اور سینیٹ الیکشن میں سنجرانی کو جتوا کر اپنی افادیت ثابت کی اور عمران خان نے تو تمام ریکارڈ توڑ ڈالے، وہ تو مٹی کے ایک ایسے کھلونے ثابت ہوئے جن کی ٹونٹی کسی بھی جگہ فٹ کی جاسکتی ہے۔
عمران خان اور پیپلز پارٹی کے حامیوں میں ایک قدر مشترک نواز شریف سے دلی نفرت ہے، پیپلزپارٹی کا دکھ تو پھر بھی سمجھ میں آتا ہے کہ نواز شریف نے پنجاب میں پیپلز پارٹی کو بالکل ہی فارغ کر دیا، لیکن پی ٹی آئی کو ان سے کیا مسئلہ ہے جبکہ پی ٹی آئی کی مہربانیوں اور ریشہ دوانیوں کی وجہ سے نواز شریف اپنے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے جرم میں تاابد نااہل ہوچکے ہیں۔
یقینی طور پر پی ٹی آئی انہیں اپنے سب سے طاقتور حریف کے طور پر دیکھتی ہے۔
عمران خان اور ان کے سنگتراش جانتے ہیں کہ پنجاب میں ابھی نواز شریف کی مقبولیت پی ٹی آئی سے کہیں زیادہ ہے اور جس دن بھی عمران خان کے تاج میں لگا ہوا اسٹیبلشمنٹ کا مقناطیس کمزور ہوا تو نہ صرف سارے الیکٹ ایبلز نون لیگ کی طرف بھاگیں گے بلکہ عوام بھی گرمجوشی سے اپنی رائے کا اظہار کریں گے۔
اب آجائیے خورشید ندیم کی نواز شریف سے توقعات کی جانب کہ وہ عوامی سپرمیسی کی جنگ لڑیں گے تو یہ توقعات صحیح ہوں یا غلط لیکن ان کے پاس ایسا تاثر قائم کرنے کی ٹھوس وجوہات موجود تھیں۔
کیا یہ حقیقت نہیں کہ شیخ رشید، چوہدری نثار اور سفاک ریٹائرڈ بریگیڈئیر اعجاز شاہ یہ بات علی الاعلان کہتے رہے ہیں کہ اگر نواز شریف اپنی ضد پر اڑے نہ رہتے تو آج بھی وزیرآعظم ہوتے؟
کیا یہ بات درست نہیں کہ نواز شریف کو سیز فائر کا پیغام بار بار بھیجا گیا اور انہیں سیاست سے دور رہنے کا مشورہ دیا گیا اور انہیں اس کا عوضانہ پیش کرنے کا لالچ بھی دیا گیا؟
میں اس بات سے بھی واقف ہوں کہ نواز شریف اور مریم کی موجودہ خاموشی اسٹیبلشمنٹ سے کسی مفاہمت کے نتیجے میں ہی ہوئی ہے، اور مثالیت پسند لوگوں کو اس بات کا صدمہ ہوا ہے کیونکہ انہوں نے غلط طور پر یہ سمجھ لیا تھا کہ اس لڑائی میں فتح قریب ہے، انسانی ذہن ایسے ہی کام کرتا ہے کہ وہ اپنے نقطہ نظر کے موافق دلائل ہی کو اہمیت دیتا ہے۔
یہ ایک لمبی لڑائی ہے اور اسے لڑنے کے لئے عوامی آگاہی ہی سب سے موثر ہتھیار ہے کیونکہ اس جنگ میں کسی دست بدست لڑائی کے نتیجے میں دونوں طرف اپنے ہی سپاہی زخمی ہوں گے۔
نواز شریف ایک معیاری لیڈر اور سیاستدان نہ ہونے کے باوجود عوام میں اتنے ہی مقبول ہیں جتنے پہلے تھے، میں بہرحال ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ سمجھتا ہوں کہ وہ اس بات کو جو پہلے ڈرائینگ روم میں ہوا کرتی تھی سڑک پر اور حجام کی دکان پر لے آئے اور عوام کو علم ہوگیا کہ سیاستدان کتنے مجبور اور بے بس ہوتے ہیں۔
جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عوامی نمائندے بہرحال سرکاری ملازمین سے کہیں زیادہ سیاست کو سمجھتے اور چلانے کے اہل ہیں وہ بیچارے تو مولانا فضل الرحمن سے بھی یہ امید لگا بیٹھتے ہیں کہ وہ اس عمل میں بیجا مداخلت کو کم کرنے کی جدوجہد کا ہراول دستہ بن جائیں گے،سچ ہے کہ ضرورت مند دیوانہ ہوتا ہے۔
یہ بات طے شدہ ہے کہ ریاست کی اندھی طاقت کے استعمال کے باوجود نواز شریف فیکٹر سیاست سے منہا نہیں ہوسکا اور جلد ہوتا نظر بھی نہیں آ رہا۔
ہم ابھی زبردست میڈیا ٹرائل بھی دیکھیں گے اور نیب اور ایف آئی اے جیسے اداروں کو استعمال ہوتا ہوا بھی دیکھیں گے۔
یہ البتہ پر دیوار پر لکھا ہوا نظر آ رہا ہے کہ ہر آنے والے دن کے ساتھ اسٹیبلیشمنٹ کا مقناطیس کمزور ہوگا کیونکہ وہ اتنی پیچیدہ صورتحال کو قابو کرنے کی صلاحیت سے عاری ہے اور جو کارندے انہوں نے چنے ہیں وہ ان سے بھی کہیں زیادہ نکمے ہیں۔