دنیا کی معیشتیں کیسے چلتی ہیں؟
Reading Time: 4 minutesسیاحت، صنعت، زراعت، خدمات اور ہنرمند افراد کی ایکسپورٹ یعنی بیرون ملک برآمد۔
پاکستان کی جی ڈی پی میں صنعت کا حصہ سنہ 2018 میں 18 فیصد رہا جبکہ خطے میں بھارت میں یہ 29.3 فیصد اور بنگلہ دیش میں 28.5 فیصد ہے۔
پاکستان میں تاریخی طور پر یہ حصہ زیادہ سے زیادہ 21.7 فیصد رہا ہے جو سال 2008 میں ممکن ہوسکا تھا۔
ایک بات تو باآسانی دیکھی اور سمجھی جا سکتی ہے کہ صنعتی میدان میں پاکستان خطے میں سب سے پیچھے ہے۔
اس کی وجہ جاننے کے لیے بھی آپ کو کسی سقراط کی ضرورت نہیں پڑے گی کیونکہ واضح طور پر اس کی ذمہ دار حکومتی پالیسی رہی ہے جو آسان آمدنی یعنی کسٹم ڈیوٹی کو اپنی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ بنا کر رکھنے کی خواہشمند رہی ہے۔
مثلاً پاکستان میں جوتوں کے ایک بہت بڑے چین سٹور کے مالکان سے جن کی لاہور میں دو بہت بڑی فیکٹریاں موجود ہیں، میں نے ایک روز یہ سوال کیا کہ سال 2010 سے لے کر 2018 تک کیا بنیادی تبدیلی آئی تو انہوں نے بتایا کہ بجلی اور گیس کے بحران سے تنگ آ کر انہوں نے اپنی ساٹھ فیصد پروڈکشن چین سے کروانا شروع کر دی تھی اور باوجود تقریباً 60 فیصد کسٹم ڈیوٹی کے وہ زیادہ سستا پڑ رہا تھا اور درد سر بھی بہت کم تھا۔
اسی طرح اس عرصے میں یعنی پرویز مشرف اور زرداری ادوار میں توانائی کا بحران اس قدر شدید تھا کہ ٹیکسٹائل سیکٹر نے بنگلہ دیش کا رخ کیا۔
آپ خود سوچیے کہ اگر پاکستان کے جی ڈی پی میں صنعت کا حصہ 28 فیصد کے لگ بھگ ہوجائے تو کتنی زیادہ نوکریاں نکلیں گی۔
کیا 28 فیصد کا یہ ہدف جو خطے کی اوسط ہے آسانی سے پورا ہو سکتا ہے؟ اس کا جواب میں تو نفی میں ہی دوں گا، اس کی وجوہات درج ذیل ہیں۔
١۔توانائی کی قیمت زیادہ ہے۔
٢۔لیبر ان ٹرینڈ اور کم پیداواری ہے۔
٣۔ ریسرچ اینڈ ڈویلیپمنٹ کا کام صفر کے قریب ہے۔
۴۔ حکومتی سرپرستی نہ ہونے کے برابر ہے۔
۵۔ کالج اور یونیورسٹی کا مارکیٹ کی طلب سے کوئی واسطہ یا رابطہ نہ ہے۔
٦۔ کلچرل اور مذہبی رکاوٹیں ہیں۔
٧۔ نئی اور قریبی منڈی سے سیاسی اختلافات ہیں۔
آپ ان تمام نکات کو باری باری دیکھیں تو نکتہ نمبر ١ توانائی کی زیادہ قیمت کا معاملہ ایک ہی صورت حل ہوسکتا ہے کہ بجلی کی ڈسٹری بیوشن کو پرائیوٹائز کر دیا جائے، وہ خود بجلی چور ڈھونڈ لیں گے اور لائن لاسز کم کرنے کا نظام بھی بنا لیں گے، لیکن یہ کام سیاسی مفاہمت کی عدم موجودگی کی وجہ سے تقریباً ناممکن ہی سمجھیں کیونکہ نج کاری کا عمل جب بھی شروع کرنے کی کوشش کی گئی تاریخی طور پر نون، پی پی اور پی ٹی آئی نے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچیں اور یہ ناممکن العمل ہوگیا۔
نکتہ نمبر ٢۔ لیبر ٹریننگ کے لئے حکومت سروے کروائے کہ کس انڈسٹری میں کتنی لیبر، کس طرح کی لیبر درکار ہے اور انڈسٹریل ایریاز میں ٹریننگ سکول قائم کرے اور اس سروے کو ٹیکس کے عملے سے دور رکھا جائے اور یہ ادارہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ میں ہو تاکہ تاجر اس کو خود چلائیں۔
نکتہ نمبر ٣۔ آر اینڈ ڈی کے لئے فنڈ قائم ہو اور پورٹ پر آدھا پرسنٹ ٹیکس لیا جائے،سیلز ٹیکس کا آدھا فیصد بھی اس فنڈ میں جائے اور یہ ادارہ بھی پرائیوٹ پبلک پارٹنرشپ میں ہو۔
نکتہ نمبر ۴۔ حکومت ایک ادارہ قائم کرے جس میں امپورٹس کا ٹوٹل ڈیٹا حاصل کرکے سب سے زیادہ امپورٹ ہونے والی اشیا کے امپورٹ متبادل ڈیولیپ کرنے کی کوشش ہو اور پھر اسے آر اینڈ ڈی کے شعبے کی طرف بھیجا جائے اور ان اشیا سے متعلق ٹیکنالوجی ٹرانسفر کے لیے دوسری حکومتوں سے بات کی جائے۔
نکتہ نمبر ۵۔ یونیورسٹی کے نصاب کے لئے ہر یونیورسٹی اور کالج میں ایک کمیٹی بنے اور ان کے ماہانہ اجلاس آر اینڈ ڈی، ٹریننگ اور صنعت کاروں کی ایسوایشن کے ساتھ ہوں،اور نصاب کی بہتری کے لئے دوسرے ترقی یافتہ ممالک سے مدد لی جائے۔
نکتہ نمبر ٦۔ رزق مقرر ہے، خدا کیڑے کو پتھر میں بھی رزق دیتا ہے، قسمت معین ہے قسم کی ہوائی باتوں کے رد کے لیے سب کو اپنی کوشش کے مطابق ملتا ہے وغیرہ ٹائپ کی چیزوں کو نصاب میں زور دار طریقے سے شامل کیا جائے۔
نکتہ نمبر ٧۔ خطے میں اپنے ملک کو ایک تھانیدار کا تشخص دینے کی بجائے ایک تاجر ملک کا تشخص اجاگر کیا جائے، چھیڑ چھاڑ کم کی جائے اور پرانے مسائل کو پانچ سال کے لئے منجمد کر دیا جائے تاکہ افغانستان بہت دور چائنا سے مال لینے کی بجائے پاکستان سے مال لینے میں زیادہ فائدہ محسوس کرے اور اسی طرح بھارت کے ساتھ بھی معاملہ ہو۔
اتنی مربوط کوشش کے لئے ہمیں سیاسی ہم آہنگی اور سیاسی استحکام کی ضرورت ہے اور اس کے لئے سیاسی جماعتوں کا ایک نیا میثاق معیشت ہو، کردار کشی کی مہم ختم ہو، کم از کم دس سال کی ایک پالیسی مشترکہ طور پر بنائی جائے اور اسے آئینی تحفظ دیا جائے، نیب جیسے بدنام اور مشکوک ادارے ختم ہوں اور ان کی جگہ احتساب کا ایک منظم نظام موجود ہو، اسٹیبلشمینٹ سیاست سے کنارہ کش ہو، تمام سیاسی امور بشمول خارجہ پالیسی سول حکومت کے سپرد کرے، سازشوں سے کنارہ کشی کرے، ہتک عزت کے قانون کو مضبوط کیا جائے، کسی پبلک فورم پر الزام لگانے والے کو سات دن کے اندر اندر ثبوت جمع کروانے ہوں ورنہ سرعام معافی مانگے اور دونوں کام نہ کر سکے تو معاملہ سپیڈی کورٹ میں چلا جائے۔
اور سب سے آخری اور اہم بات یہ ہے کہ یورپ اور امریکا سے بنگلہ دیش کی طرح منڈی میں سپیشل اسٹیٹس لینے کے لیے پاکستان ایک دس سالہ ایٹمی ہتھیار تلف کرنے کا منصوبہ دنیا کو پیش کرے اور اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو بتدریج کم کر کے کم از کم ڈیٹرنس کی سطح پر لائے۔