اداروں کی ساکھ اور اظہار کا سلیقہ
Reading Time: 3 minutesمحترم اظہار الحق کو اظہار کا سلیقہ آتا ہے، کل ان کا ایک نوحہ پڑھا جس میں انہوں نے لکھا کہ ہم دلدل میں دھنس رہے ہیں اور زرداری، نواز شریف کے بعد عمران خان انہی کا ایک تسلسل ثابت ہو رہے ہیں۔
زرداری اور نواز شریف کی کرپشن کی داستانیں سن سن کر سب نے اپنا ذہن بنا لیا کہ یہ تو اب پکڑے جائیں گے اور وصولی بابا ان سے وصولی کر لے گا، ایک خالص دیانتدار شخص آیا ہے وہ انہیں چھوڑے گا نہیں اور پھر پتہ چلا کہ اس خالص دیانتدار شخص سے بھی کچھ نہیں ہو پا رہا، اور اس کے اردگرد سارے چور جمع ہوگئے، ساتھ ہی اظہارالحق نے روُف کلاسرہ کی خبر پر بھی بات کی جس میں بتایا گیا کہ انیل مسرت کے تعلقات نہ صرف عمران خان کے ساتھ ہیں بلکہ وہ شہباز شریف کے ساتھ بھی اچھے تعلقات کے حامل ہیں، ایسا لگتا ہے کہ حق صاحب نے انیل مسرت کی تصاویر بھارتی اداکاروں کے ساتھ نہیں دیکھیں۔
میری نظر میں اظہار الحق صاحب کا معاملہ تقریباً وہی ہے جو پروپیگنڈا کے شکار سب لوگوں کا ہے۔ نواز اور زرداری کے خلاف میڈیا ٹرائل کو حقیقی چارج شیٹ سمجھنا اور عمران خان کو ایک ایسا سپرمین سمجھنا جو سب معاملات کو درست کر سکتا ہے دراصل ایک شدید قسم کا مغالطہ ہے۔
کئی بار پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ پاکستان میں کسی ایک بھی ادارے کی کوئی کریڈیبیلیٹی نہیں ہے۔
سیاستدانوں کا پوسٹ مارٹم تو ہر شام ہوتا ہے جس میں ان کے کئے گئے وعدوں پر ان کی بھد اڑائی جاتی ہے اور اگلی شب ہی وہی اینکر ڈھٹائی سے اگلی پیش گوئی کرتا نظر آتا ہے۔
عدلیہ کی کریڈیبیلیٹی جاننے کے لئے بھٹو کیس، نواز شریف ہائی جیکنگ کیس، نیب کورٹ کے کیسز کے فیصلے دیکھ لیں سمجھ آجائے گی۔
اسٹیبلشمنٹ کی کریڈیبیلیٹی جاننے کے لیے یہ دیکھ لیں کہ جب عشرت حسین کو گورنر بنایا گیا تو ان پر کتنے مقدمات تھے، جناح پور کے مبینہ نقشے کس نے برآمد کر کے عوام کو دکھائے اور پھر اسی جماعت سے بارہ مئی کو کلینزنگ کروائی گئی، پانچ مرلے کے گھر کی پانی کی ٹینکی سے ایک ٹرک اسلحہ برامد کروایا گیا اور اس ملک کے دفاعی اداروں کی صلاحیت اسامہ بن لادن کیس میں صاف دیکھی جاسکتی ہے۔
نیب کی کریڈیبلیٹی پر تبصرہ اپنے الفاظ ضائع کرنے کے مترادف ہے۔
یعنی ہماری ناکامی ہمہ جہتی ہے لیکن ہماری بہادری صرف اور صرف سیاستدانوں کے لیے مختص ہے۔
اظہار الحق جیسے سنجیدہ لوگوں کو پروپیگنڈا اور سچ میں تفریق کرنے کی صلاحیت حاصل کرنی ہوگی جو تنقیدی جائزے کی صلاحیت کے بغیر کبھی نہیں آ سکتی۔
ان کے لئے مناسب مشورہ یہ ہے کہ وہ ڈاکٹر عاصم پر میڈیا میں لگے الزامات اور پھر نیب ریفرنس میں گھپلے کی رقم پڑھ لیں، شرجیل میمن پر الزامات کی رقم اور ریفرنس میں عائد شدہ الزامات دیکھ لیں اور زرداری صاحب کے فالودے والے کے اکاوُنٹ میں ڈالی گئی رقم کا ہندسہ اور ریفرنس میں موجود الزامات دیکھ لیں۔
یہ ریاست اور اس کے تمام ادارے پہلے دن سے عوام کو دھوکے میں رکھے ہوئے ہیں، آج اظہار صاحب جو کچھ عمران خان کے بارے میں سن رہے ہیں اس میں سے بھی آدھا جھوٹ ہے۔
میں تو اپنی اسی رائے پر آج بھی قائم ہوں کہ نیشنل ری کنسیلئیشن کے بغیر گاڑی دائرے میں ہی گھومے گی اور کبھی کبھار بولا ہوا سچ بھی جھوٹ ہی سمجھا جائے گا۔ عمران خان اور ان کے سنگتراش اگر کچھ جھوٹے سچے کیسز میں زرداری اور شریف برادران کو سزا سنا بھی دیتے ہیں تو عوام اس کو تسلیم نہیں کریں گے کیونکہ عوام کو اداروں پر اعتماد ہی نہیں ہے اور ووٹ دیتے ہوئے وہ ایک بار پھر انہی کو ووٹ دیں گے جنہوں نے انہیں ریلیف دیا تھا۔