کروناوائرس: نظریات اور اخلاقیات
Reading Time: 2 minutesاحسان حقانی
@haqbrother
میرے پاس وٹس ایپ میں اپریل 2005 کی ایک ویڈیو ہے۔ امریکی محکمہ دفاع میں ایک طبی ماہر بریفنگ دے رہے ہیں کہ انسانی دماغ میں کچھ خلیے ہیں جن کا تعلق خدا اور مذہبیت سے ہے۔ ہم ان خلیوں کو غیر فعال کرسکتے ہیں۔
انفارمیشن ٹکنالوجی اور بے حد خیرات دینے کے لیے معروف امریکی شخصیت بل گیٹ کو کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ کمپیوٹر وائرس کی طرح انسان کی سوچ اور فکر میں بھی ٹربل شوٹنگ کی جا سکتی ہے۔
جین ایٹک انجینئر نگ کے بارے میں آپ نے سنا ہوگا۔اس سے انسان کی عادات میں تبدیلی لانا ممکن ہوجائے گا۔
دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کرہ ارض کے لئے مہیب خطرہ ہے۔ یعنی خود انسانوں کی کثرت سے انسان کی نسل خطرے میں ہے۔ کئی سال پہلے میں نے سنا تھا کہ دنیا میں اس وقت اتنا گولہ بارود جمع ہوا ہے کہ اگر برابر تقسیم کیا جائے تو کرہ ارض کے ہر شہری کے حصے میں بیس ہزار کلو بارود آئے گا۔اب تو ایسے ہتھیار مارکیٹ میں ہیں کہ اس بارود کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہنے والی۔گلوبل وارمنگ دنیا کے لئے ایک اور خطرہ ہے۔
دنیا کی آبادی کو کیسے کنٹرول کیا جائے؟ گلوبل وارمنگ کو کیسے روکا جائے؟اس موضوع پر ہزاروں نہیں، لاکھوں کتابیں لکھی جاچکی، جن کے کروڑوں نسخے بکے ہوں گے۔ اس موضوع پر دنیا بھر کے بہترین سائنسدانوں، فلمسازوں اور اداکاروں نے مل کرفلمیں بنائی ہیں۔ مثلاً یہ کہ اگر ایک دوسرے سیارے کا زمین کے ساتھ ہلکا ساٹکراؤ کرکے، کرہ ارض کو سورج سے ذرا دور کردیا جائے تو کیسارہے گا؟کیا ایک وائرس کے ذریعے پچاس ساٹھ کروڑ انسانوں کو مار کر باقی انسانوں کی زندگی بہتر بنانا مناسب ہوگا؟اگر انسانوں کا سائز چھوٹا کردیا جائے تو کیا وسائل کی بچت ہوسکتی ہے؟کیا کائنات میں کوئی اور سیارہ ہے جہاں انسان کے لئے زندگی کے امکانات ہوں؟مصنوعی دل، گردوں، پھیپڑوں، ہاتھ پاؤں اور دیگر مصنوعی اعضا کے بارے میں تو ہرکسی نے سنا ہے۔
عبدالرحیم روغانے، اس دور میں پشتو زبان کے بہت بڑے شاعر اور مفکر ہیں۔ انہوں نے پشتو نثر میں پانچ سو چھتیس صفحات کی ایک کتاب لکھی ہے،’کوربانہ خیالونہ‘۔ اس کتاب میں انہوں نے ہزار سال بعد کی دنیا کی ایک بہت ہی دلکش تصویر پیش کی ہے۔ کتاب چونکا دینے والے سائنسی نظریات اور ممکنات کے تذکرے سے بھرپور اور ایک ناول سے زیادہ دلچسپ ہے۔ اس کتاب میں ایسی ویکسین کا تفصیلی ذکر ہے جس سے غصہ، کینہ، غیبت اور اس طرح کی خراب عادتیں ختم ہوجاتی ہیں۔ بعض لوگوں کو شرافت اور صبر وغیرہ کی اضافی ویکسین کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ فطرت کے کام میں مداخلت کرکے اچھی یا بری نیت سے انسان کی زندگی پر تجربات کا عمل کوئی نئی اور اچھوتی بات نہیں۔ کرونا کے بارے میں سازشی نظریات نہ مکمل جھوٹ ہیں اور نہ ہی مکمل سچ۔ اس پر بات ہو سکتی ہے لیکن یہ تو طے ہے، کہ کرونا نام کا وائرس ہمارے آس پاس موجود ہے۔ ہم نے اس سے بچنے کے لئے ہر ممکن تدبیر کرنی ہے۔ اور اس کی وجوہات اور تدراک پر جتنی بھی بحث ہو، وہ اخلاق اورشائستگی کے دائرے میں ہو۔