نئے بیانیے کی تشکیل کا وقت
Reading Time: 4 minutesاس بات سے کس کو انکار ہے کہ مظلوم کشمیریوں کے حق خود ارادیت اور آزادی کو روز اوّل سے ہی چانکیہ فلسفے کے علمبرداروں نے دبوچ لیا ہے اور دیو استبداد اس پر اپنے خونی پنجے گاڑ چکا ہے۔
کون نہیں جانتا کہ جب نریندر مودی گجرات کا وزیراعلٰی تھا تو شہر کی نالیوں میں پانی کی بجائے مظلوم مسلمان اقلیت کا خون بہتا رہا۔
کسے نہیں معلوم کہ وزیراعظم بنتے ہی مودی اپنا ”خونی بیانیہ“ دلی لے کر آیا اور اسے شہر شہر پھیلا کر دم لیا۔
کس کو یہ غلطی فہمی ہو سکتی ہے کہ دلی کے ایوانوں میں پاکستان کے حوالے سے کوئی مثبت اور تعمیری سوچ اُبھر سکتی ہے۔
کلھبوشنوں کی تاریخ اور کرتوتوں سے بے خبرکون ہے۔
ہمسایہ ملک افغانستان میں را کے ایجنٹوں کے لاؤ لشکر اور ٹریننگ کیمپس کتنی نگاہوں سے پوشیدہ ہیں۔
بین الاقوامی میڈیا میں پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کب چھپی ہوئی ہے۔
اور عالمی فورمز میں پاکستان کے خلاف انڈین لابیز کی سازشوں سے آگاہی کتنوں کو نہیں۔ لیکن ان تمام تر حقائق اور منظر نامے کو ذھن میں رکھ کر ہم آگے بڑھتے ہیں۔
انڈیا کی آبادی اس وقت ایک ارب 30 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اور مسلمان اقلیت میں ہیں لیکن وہاں کی ریاستی پالیسی نے اس اقلیت کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ کون سا ظلم ناروا ھے جو ان پر نہیں ڈھایا گیا۔
کشمیر مسلم اکثریت علاقہ ہے لیکن ریاستی جبر کا اندازہ اس سے لگائیں کہ انڈیا استصواب رائے کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قرارداد تک کو پاؤں تلے روند چکا ہے اور مظلوم کشمیری جبر اور غلامی کو سہتے چلے آ رھے ہیں۔
انڈیا کے مقابلے میں پاکستان کی آبادی صرف 21 کروڑ ہے۔ پورے ملک میں کہیں بھی ھندو اکثریتی علاقہ نہیں ، نہ ہی پاکستان نے انہیں بزور بازو قبضے میں لیا ہوا ہے ۔
ھندو اقلیت کسی بھی جبر یا حقوق کی پامالی کا شکار بھی نہیں اور اگر سالوں میں کوئی اکا دکا واقعہ ہو بھی جائے تو ریاست اور عوام(مسلمان ) ڈٹ کر ان کی حمایت میں کھڑے ہو جاتے ہیں ۔
پاکستان نے نیپال اور بھوٹان میں وہ کرتوت بھی نہیں دکھائے جو ھندوستان روز روز افغانستان میں دکھاتا پایا جا رہا ہے لیکن ان تمام تر حقائق اور پاکستان کے مثبت طرز عمل کے باوجود آخر وہ کون سی وجوھات ہیں جس نے عالمی سطح پر پاکستان کو توانا سپورٹ اور نتیجہ خیز اخلاقی فتح سے ہمیشہ دور ہی رکھا ۔
ہم تھوڑا سا پیچھے جا کر سانحہ مشرقی پاکستان میں جھانک آتے ہیں لیکن اس سے پہلے برصغیر کی پانچ ہزار سالہ تاریخ کو بھی تھوڑا سا ٹچ کر تے جائیں ۔
جو ہمیں سمجھارہا ہے کہ اس طویل تاریخ میں جنوب سے نہ تو کوئی حملہ آور ہوا اور نہ ہی فاتح ٹھرا بلکہ حملے اور فتح کا سلسلہ مکمل طور پر شمال سے جڑا ہوا ہے ۔
پھر اُنیس سو اکہتر میں آخر ایسا کیا ہوا کہ یہ تسلسل قائم نہ رہ سکا اور جنوب (ھندوستان) کو برتری حاصل ہوئی ۔
میرا استدلال ہمیشہ یہ رہا کہ پاکستانی فوج ھندوستان سے قطعًا نہیں ہاری بلکہ اندرونی کشمکش اور سیاسی ھیجان نے فوجی شکست کی راہ ھموار کی ۔
آپ ایک لمحے کے لئے تصوراتی طور پر ذھن کو اس نقطے پر مرکوز کریں کہ اُنیس سو ستّر کے الیکشن کے فاتح شیخ مجیب الرحمٰن کا راستہ نہ روکا جاتا تو مشرقی پاکستان محرومی کا شکار اور ناراض کیوں ہوتا۔
اور رد عمل میں مکتی باھنی وجود میں کیوں آتی ۔
مشرقی پاکستان میں انتہائی مقبول شیخ مجیب کی حمایت کو احمقانہ فیصلے پاکستانیت کی بجائے بغاوت کی طرف نہ موڑتے بلکہ انتخابی فاتح شیخ مجیب الر حمن کو وزیراعظم بننے دیا جاتا اور ذوالفقار علی بھٹو اپوزیشن لیڈر بنتے کسی کی حق تلفی نہ ہوتی اور سیاست اوراقتدار فطری بہاؤ میں آگے بڑھتے اب آپ اس نکتے پر آئیں کہ اس دوران پاک بھارت فوجیں آمنے سامنے آتیں تو کیا سینکڑوں سالہ تاریخ کا تسلسل اسی طرح قائم نہ رہتا? میرا مطلب شمال کی روایتی برتری سے ھے. کہیں پڑھا تھا کہ ہماری حربی کیپیسٹی تب بھی مخالف فوج کی نسبت کئی گنا بہتر تھی لیکن بے بصیرت اور دانائی سے دور فیصلہ ساز ھی شکست کے موجب بنے. کہنے کا مطلب یہ ہے کہ حربی تیاری کے ساتھ ساتھ اندرونی طور پر سازگار فضا کا قیام بھی حربی سٹریٹیجی ھی کا حصہ اور متقاضی ہوتا ھے .اس طویل تمہید کو باندھنے کا مقصد ہی یہی ہے کہ جبر و قہر اور انتقام و اشتعال کے اشجار کا ثمر صرف دشمنوں کی آنگنوں میں گرتا ہے جبکہ اس کا دیمک اپنے ہی گھر کے درو بام کا رُخ کرتا ہے ۔ بد قسمتی سے اس تلخ تجربے سے ھم عملی طور پر گزر بھی چکے ہیں. اس لئیے ماضی کے تجربے اور بدلتے ہوئے زمانے کے تمام حقائق کے ملاپ سے ایک بصیرت آفریں اور دانائی سے معمور اندرونی منظر نامے کی تراش خراش سے بقاء کا راستہ نکالنا ہوگا. کیونکہ ھم موجودہ حالات میں نہ تو نفرت کے متحمل ہو سکتے ہیں اور نہ ھی عصبیت کے ..یاد رکھنا ہوگا کہ اس ملک میں نہ تو کوئی بزدل ھے نہ ھی کوئی غددار (کم از کم موجودہ منظر نامے میں ) بلکہ قربانی کی تاریخ میں سب ھی کا اپنا اپنا حصہ بھی ھے . گویا پیش رفت ناممکن ہرگز نہیں۔
پچھلے کالم میں بھی گزارش کی تھی کہ نفرت و انتقام اور حق تلفی و جبر سے کوسوں دور ایک نئے اور حقائق سے ہم آھنگ بیانئے کی تشکیل کا مناسب وقت ہے ۔
اور اس کی ذمہ داری تمام سیاسی جماعتوں ،پارلیمان ، مقتدر اداروں اور عدلیہ کے ساتھ ساتھ عوام پر بھی عائد ہوتی ہے کیونکہ ھمارا دشمن مکار بھی ہے اور چوکنا بھی جبکہ بدقستمی سے ھم غنودہ بھی ہیں اور منتشر بھی۔