جذباتی ذہانت ہی کوہلی کو عمر اکمل سے ممتاز کرتی ہے؟
Reading Time: 3 minutesجذباتی ذہانت سے متعلق مضمون کی اشاعت پر جو ردعمل آیا وہ دلچسپ تھا۔ ایک دوست نے لکھا کہ وہ جذباتی ذہانت کی تعریف سے اپنے آپ کو متفق نہیں کر پاتیں۔ انہوں نے لکھا کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ثروت حسین، مصطفیٰ زیدی، سارہ شگفتہ، شکیب جلالی سب کند ذہن تھے۔
مناسب ہوگا کہ ہم ذہانت کے عام تصور اور جذباتی ذہانت کے تصورات کو علیحدہ علیحدہ کر کے دیکھ لیں۔
روایتی ذہانت کی تعریف کیا ہے؟
ذہانت ایک ایسی اصطلاح ہے جس کی وضاحت کرنا مشکل ہے ، اور اس کا مطلب مختلف لوگوں کے لئے بالکل ہی مختلف ہوسکتا ہے۔ ذہانت کی ایک تعریف کسی بھی شخص کی سیکھنے کی صلاحیت اور اس سیکھی ہوئی چیز کے عملی اطلاق کر سکنے کہ اہلیت ہے۔
ذہانت کی ایک اور تعریف سیکھنے کی اہلیت اور نئی صورتحال میں اس علم کے ذریعے اپنے آپ کو تبدیل کرنے کی اہلیت ہے۔
تعلیم کے میدان میں اسے قابلیت کے ساتھ ساتھ استدلال کرنے اور تجریدی سوچ رکھنے کی صلاحیت کے طور پر بھی بیان کیا جاتا ہے۔ نفسیات میں ، یہ کسی کے ماحول کو جوڑ توڑ کرنے کے لئے علم کا اطلاق کرنے کی صلاحیت ہے یا معروضی معیار کے مطابق ماپنے والے انداز سے سوچنے کی صلاحیت ہے۔ ذہانت کو ماپنے کے لئے ایک ٹیسٹ کیا جاتا ہے جسے IQ ٹیسٹ کہا جاتا ہے۔
عام ذہانت میں میں اکثر کہا جاتا ہے کہ وہ متعدد مخصوص صلاحیتوں پر مشتمل ہوتی ہیں جیسے زبانی اہلیت ، مسائل کو حل کرنے میں منطق کا اطلاق کرنے کی صلاحیت۔
دنیا کی دو تہائی آبادی کا آئی کیو سکور 85 سے 115 کے درمیان ہوتا ہے جبکہ 70 سے کم اور 130 سے زائد افراد صرف اڑھائی فیصد ہوتے ہیں۔
سنہ 1995 میں دو پروفیسرز نے ذہانت کا ایک نیا تصور پیش کیا جسے بعد ازاں جذباتی ذہانت کہا گیا،یہ عام ذہانت سے بالکل مختلف تصور تھا۔
جذباتی ذہانت کی جو تعریف کی جاسکتی ہے وہ ہے
افراد کی اپنے اپنے جذبات اور دوسروں کے جذبات کو پہچاننے اور سمجھنے کی صلاحیت، مختلف احساسات کے درمیان فرق کرنے کی اہلیت اور ان کو مناسب طور پر لیبل کرنے کی صلاحیت، سوچ اور طرز عمل کی رہنمائی کرنے کے لئے جذباتی معلومات کا استعمال ، اور ماحول کو اپنانے کے اہنے جذبات کو ایڈجسٹ کرنے یا اپنے مقاصد (حصول) کو حاصل کرنے کی صلاحیت۔
گویا روایتی ذہانت کا تعلق خارج اور جذباتی ذہانت کا سراسر تعلق باطن سے ہے۔
جذباتی طور پر ذہین انسان نہ صرف یہ جان جاتا ہے کہ خود اس کو کیا اچھا لگتا ہے بلکہ یہ بھی جان جاتا ہے کہ دوسروں کو کیا اچھا لگتا ہے،یہ جان لینے کے بعد وہ اس چیز کا خاص خیال رکھتا ہے کہ ان سرحدوں سے دور رہے جہاں بارودی سرنگیں بچھی ہوئی ہیں اور کسی کے جذبات مشتعل ہو سکتے ہیں،وہ اپنے جذبات اور دوسروں کے جذبات میں ایک خاص قسم کی تطبیق پیدا کرنے کا اہل ہوجاتا ہے۔
گویا ہم یہ بات قطعی یہ نہیں کہہ رہے کہ ثروت حسین،شکیب جلالی یا سشانت میں سیکھنے کی صلاحیت اور اس کے عملی اطلاق کی صلاحیت نہیں تھی بلکہ یہ کہا جارہا ہے کہ ان افراد میں اپنے جذبات اور اپنے اردگرد کے لوگوں کے جذبات کو سمجھنے کی صلاحیت نسبتاً کم تھی۔
اس کی ایک اور مثال لے لیتے ہیں۔
ویرات کوہلی اور عمر اکمل کم و بیش ایک سی صلاحتوں کے حامل کھلاڑی کے طور پر ابھرے، دونوں کے پاس ہر طرح کے سٹروکس موجود تھے، پریکٹس بھی شاید برابر کرتے ہوں، کوچ بھی دونوں کو بدیسی ملے گویا صلاحیت، اہلیت اور محنت تو ایک سی تھی لیکن ایک ستارہ بن گیا اور ایک گرد راہ۔
آپ اگر کوہلی اور عمر اکمل کی بدن بولی کو تھوڑی دیر غور سے دیکھیں گے تو یہ بات جان لیں گے کہ دونوں کے درمیان فرق جذباتی ذہانت کا ہے نہ کہ اہلیت اور محنت کا، اور یہ بات ان دونوں حضرات کے عمومی رویوں سے بھی ثابت ہوجائے گی۔