کووڈ کے 19 نکات اور جاہل عوام
Reading Time: 3 minutesچھوٹے ہوتے بارہا کتابوں میں یہ ضرب المثل پڑھتے آئے ’پہلے تولو پھر بولو’ تب اس کی سمجھ نہیں آتی تھی کہ بولتے وقت بھی بندا بھلا کیا تولے اور کیا بولے، یہ مشکل اردو بھی مشکل سے ہی سمجھ آتی تھی۔ جب بڑے ہوئے تو ایسی ضرب الامثال کو اپنی عملی زندگی میں ہوتے دیکھا، تب صرف مطلب ہی نہیں ان کا مقصد بھی بخوبی سمجھ میں آیا۔
ہمارے بڑے بھی کہا کرتے تھے کہ بیٹا بولنے سے پہلے سوچ لیا کرو، کیا کہنے لگے ہو، کون سی بات کہاں کرنی اور کیسے کرنی ہے، آج ان کی یہ نصیحتیں بھی یاد آ رہی ہیں کہ درست کہتے تھے، ہم تو منہ پھاڑ کر ہر بات بول دیتے ہیں اور پھر بعد میں سوچتے ہیں کہ یہ کیا کہہ دیا؟ اگلا بندہ کیا سوچتا ہوگا؟ کمان سے نکلا تیر اور زبان سے نکلے الفاظ بھی کبھی واپس لوٹے ہیں بھلا؟
یہ الفاظ اکثر کسی کے لیے تکلیف کا باعث بن جاتے ہیں اور بعض اوقات خود ہمارے لیے مذاق بن کر رہ جاتے ہیں. ایسا ہی کچھ آج کل ہورہا ہے۔ ہمارے قابلِ احترام سیاستدان بنا سوچے سمجھے ایسے ایسے بیانات دیے جارہے ہیں کہ جس سے کبھی عوام کی دل آزاری ہو جاتی ہے تو کبھی عوام کو ان کی دل آزاری کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔
مقصد یہاں کسی کے احساسات مجروح کرنا نہیں، صرف ضرب المثل کی حقیقت بیان کرنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ جنہیں ہم بچپن سے پڑھتے آ رہے ہوتے ہیں لیکن ان کے حقیقی معنیٰ ہمیں عمر کے اس میں میں سمجھ آتے ہیں جب ہم پر وہ سب گزر رہی ہوتی ہے۔
جی بالکل ایسا ہی کچھ موجودہ حکومت کر رہی ہے. ہمارے ہی ووٹوں سے اقتدار میں آنے والے یہ سیاستدان ہمیں ہی کسی گنتی میں نہیں رکھتے۔ پہلے ووٹ لینے کے لیے ان سے اچھا ان سے سچا ان سے مخلص لیڈر ہی کوئی نہیں ہوتا، ایسے ایسے سبز باغ دیکھاتے ہیں کہ بعد میں نہ باغ دکھائی دیتا ہے نہ باغ دکھانے والا۔ پھر صرف ہمیں ان کے بیانات ہی سننے کو ملتے ہیں۔
ووٹ لیتے وقت جو زندہ دلان لاہور تھے آج وہی عوام جاہل ہوگئے، بالکل ٹھیک کہا ہم تو ہیں ہی کم عقل، جو اپنے ہاتھوں سے ان حکمرانوں کو خود پر مسلط کیا۔ ان کے لیے سڑکوں پر نکلے، 126 دنوں کے دھرنے میں کھلے آسمان تلے یخ بستا ہواؤں میں ٹھٹھرا دینے والی ٹھنڈ میں احمقوں کی طرح شرکت کرتے رہے۔ اس وقت کے حکمرانوں سے بھی ذلیل ہوئے اور جن کی خاطر یہ سب کیا اب ان سے بھی ذلیل ہو رہے۔ ہم ہیں ہی اس قابل، کس نے کہا تھا تبدیلی کا نعرہ لگاؤ اب لگایا ہے تو اس تبدیلی کا مزہ بھی چکھو۔
سب جانتے ہیں کہ آج کل پوری دنیا کس طرح کورونا وائرس سے لڑ رہی ہے۔ اگر دیگر ممالک سے موازنہ کیا جائے توپھر بات وہی آکرختم ہو جاتی ہے کہ ہمیں تو جہالت کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے. کہیں عوام ناقص العقل تو کہیں ماشائاللہ قابلِ احترام ضرورت سے زیادہ پڑھے لکھے سیاستدان اور وزرا۔ چلو مان لیا ہم تو ہیں ہی جاہل ہمیں کوئی علم نہیں، کوئی شعور نہیں اس وائرس کے متعلق، لیکن ہمارے وزراء تو پڑھے لکھے ہیں نا، ایسے ہی تو انہیں وزیرصحت یا وزیر موسمیاتی تبدیلی لگا دیا، ہمارے تو وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی بھی اپنے آپ میں بہت بڑے سائنسدان ہیں۔ اتنا ہی نہیں ہمارے تو وزیراعظم صاحب خود کسی سے کم نہیں۔
ایک ایک کرتے اس حمام میں سب ہی برہنہ ہوئے ہیں. ایک طرف ہمارے وزیراعظم صاحب خود کہتے ہیں کہ یہ وائرس کھانسی زکام سے ذیادہ کچھ نہیں، پھر فون کالز پر چلنے والی مہم میں بھی اس کو خطرناک نہیں لیکن جان لیوا قرار دے دیا جاتا ہے. پھر کویڈ-19 کے 19 نکات کا اپنا ہی ایک الگ مقام ہے. ایک طرف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی والے کہتے ہیں کہ اس کا کوئی علاج نہیں، ان کے بس کا نہیں یہ وائرس لہذا بس خود احتیاط کریں تو دوسری طرف ہمارے گورنر پنجاب صاحب نے تو اس کا علاج گرم پانی بتا دیا۔
اب آپ خود بتائیں یہ کند ذہن عوام کس کی سننے کس کا کہا سچ مانے. جنہیں ابھی تک خود اس مرض کی سنجیدگی کا اندازہ نہیں، اسی لیے تو پہلے خود ہی لاک ڈاؤن لگایا، پھر عید منانے کے لیے مارکیٹوں کو کھول دیا گیا۔ اب بے چارے عوام اس مرض کی وجہ سے لگائے گئے لاک ڈاؤن کی سنجیدگی کو سمجھتے یا عید منانے کے لیے اس فیصلے کو؟ جس سے اس مرض کے پھیلاؤ میں تیزی آئی۔ سب کے بیانات، قول و فعل میں تضاد ہے۔ انہیں خود اندازہ نہیں وہ کیا کہہ رہے اور کر رہے، تو پھراس جاہل عوام سے آپ کیا توقع رکھتے ہیں۔