عمران خان کرپشن کیوں نہیں کرتے؟
Reading Time: 4 minutesمحمد حسنین اشرف
خان صاحب اور ان کے چاہنے والوں نے پچھلے الیکشن کی پوری کیمپین کی بنیاد ایک شخص کے بارے میں اپنے گمان پر رکھی تھی۔ جس کا لب لباب یہ تھا کہ پچھلوں میں سب سیاست دان کرپٹ تھے اور خان صاحب کرپٹ نہیں ہیں۔ اس لیے انہیں ایک موقع ملنا چاہیے۔ پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں صلاحیت کی بجائے وہ تمام اوصاف دیکھے جاتے ہیں جن کا براہ راست حکومتی امور سے کچھ تعلق نہیں ہوتا۔ عمران خان صاحب کا الیکشن لڑنا اور وزیراعظم بن جانا ہمارے قوم کے سیاسی شعور کی بہترین عکاسی ہے۔
بہرکیف، سر دست میں صرف اس جملے کی طرف بڑھنا چاہوں گا کہ خان صاحب آخر کرپٹ کیوں نہیں ہیں؟ راقم کی رائے میں یہ جملہ بالکل بھی درست نہیں۔ یہ کہنا کہ خان صاحب کرپشن نہیں کرتے درست نہیں، یوں کہنا چاہیے کہ خان صاحب کرپشن کر نہیں سکتے۔ بظاہر دونوں جملوں کا نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے، خان صاحب کرپشن اس لیے نہیں کرسکتے کیونکہ انہیں اس سارے سسٹم سے شناسائی نہیں ہے۔ حکومتی امور میں خرد برد کرنے کے لیے انسان کو اس کا گہرا علم اور اس پر خاصی ذہانت درکار ہوتی ہے۔ خان صاحب، اس سسٹم کا بالکل بھی علم نہیں رکھتے۔
یہ ایسے ہی ہے کہ آپ اپنے دفتر کے مالی کو سی ای او لگا دیں اور مہینے بعد بھنگڑے ڈالیں کہ یہ تو بہت ایماندار ہے۔ بھئی، وہ ایماندار نہیں ہے۔ اس کو کمپنی میں خرد برد کرنے کے لیے جس علم اور صلاحیت کی ضرورت ہے۔ وہ اس سے خالی ہے۔ ہمیں شاید لگتا ہے کہ وزیراعظم کی کرپشن ایسے ہوتی ہے کہ وہ اپنے پی اے کو بلا کر بتاتا ہے کہ چار ارب میرے اکاونٹ میں اور دو تین ارب میرے بیٹوں کے اکاونٹ میں ڈال دے۔ حالانکہ جسے ہم وائٹ کالر کرائم بولتے ہیں اس کے لیے انسان کی سسٹم سے بہت گہری واقفیت ضروری ہے۔ اس کے لیےجاننا پڑتا ہے کہ آپ انٹرنل کنٹرولز کو کیسے چکمہ دے سکتے ہیں۔ مالی اب دو نقصان کرے گا، کیونکہ وہ ان لوگوں پر سربراہ ہے جو اس سسٹم سے گہری واقفیت رکھتے ہیں۔ ایک تو وہ، کڑی نظر نہ رکھنے اور سسٹم سے واقفیت نہ رکھنے پر بہت آسانی سے بیوقوف بنا لیا جائے گا۔ یوں اس کے نیچے والے لوگ باآسانی کرپشن کرسکیں گے۔ اس کے علاوہ وہ پالیسیز ایسی بنایے گاجس سے پودوں کو ہی فائدہ ہوگا کمپنی برباد ہو کر رہ جایے گی۔ جب اس پر یہ حقیقت کھلے گی تو وہ معصوم بن کر یہ کہہ دے گا کہ مجھے تو ٹیم اچھی نہیں ملی۔ حالانکہ وہ خود مسئلے کی جڑ ہے۔ اورتیسرا یہ کہ وہ اس سارے نظام میں غیر متعلق ہو کر رہ جایے گا۔
اگر آپ خان صاحب کے کیریئر کا جائزہ لیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ خان صاحب سیاستدان نہیں ہیں بلکہ ایک کھلاڑی ہیں۔ کھلاڑی ملکی سطح پر کرپشن کرنا نہیں جانتا، ہاں وہ لوگوں سے مل کر اپنے فائدے کے لیے میچ فکس کرنا جانتا ہے۔ اس لیے جب اسے حکومت کا حصہ بنایا جائے گا تو وہ زیادہ سے زیادہ میچ فکس کرنے کی حکمت عملی بنا سکے گا۔ اس سے زیادہ اس کے بس کی ہے بھی نہیں۔ وہ میچ سے قبل اور اس کے بعد بنا پرچی دیکھے انٹرویو دینے کی تربیت پاتا ہے۔ وہ میچ میں مخالف کو تہس نہس کردینے کی نیت سے اترتا ہے۔اس کے لیے وہ اسے بسا اوقات مخالفین کو اپنے جملوں اور باتوں سے بھڑکانے پر بھی اتر آتا ہے۔ ایک کھلاڑی کا کی پوری زندگی ایک کھیل ہوتی ہے جس کا واحد مقصد کچھ حاصل کرنا یا کھونا نہیں ہے بلکہ گروانڈ سے باہر بیٹھے لوگوں کو تفریح فراہم کرنا ہوتا ہے۔
آپ خان صاحب کے دور حکومت اور اس پہلے کے بیانات کو نکال لیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ خان صاحب جمہوریت کو بھی ایک کرکٹ میچ سمجھتے ہیں۔
وہ ایمپائر کی انگلی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ کیونکہ وہ میچ کے رموز اوقاف سے خوب واقف ہیں کہ ایمپائر کا ساتھ مل جانا سب سے آسان اور موثر میچ فکسنگ ہے۔
کرپشن سامنے آنے پر وہ شدید حیرانی کا اظہار کرتے ہیں جس سے ظاہر ہے کہ ان کی تربیت نہیں ہے اور وہ باآسانی گھما لیے جاتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ انہیں ٹیم اچھی نہیں ملی حالانکہ ٹیم تو اچھی ہے لیکن اس کی بہترین کارکردگی کے جس میدان کے آدمی کی ضرورت ہے وہ خان صاحب ہرگز نہیں ہیں۔
خان صاحب بہترین تقاریر کرتے ہیں کیونکہ وہ میچ سے قبل اور بعد کے انٹریو کے رموز جانتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ہار جانے کے باوجود بھی ہار کر جیتی ہوئی شکل کیسے بنائی جاتی ہے۔
وہ مخالفین اے سی اتروانے تک جاتے ہیں، وہ ان کو جیلوں میں ڈالنے کی دھمکیاں دیتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک یہ بھی ایک میچ ہے جس میں مخالف کو چت کرنا ہی جیت ہوتی ہے۔
خان صاحب پیوند لگے کپڑے پہنتے، ہاتھ میں تسبیح رکھتے ہیں۔ اور تماشائی اس سادگی پر خوب داد کے ڈونگرے برساتے ہیں۔
اس سب کے باوجود وہ جانتے ہیں کہ وہ اس ملک کا جیسا بھی بیڑہ غرق کردیں، جو بھی حالت کردیں ان کے چاہنے والے ہمیشہ’تم جیتو یا ہارو، ہمیں تم سے پیار ہے’ گاتے رہیں گے۔ کیونکہ یہ ایک موقع ہے بالکل ویسا موقع جو ایک نیے کھلاڑی کو دیا جاتا ہے۔ لیکن ایک بات یاد رکھیے کہ ملک کا کرکٹ کا گراونڈ نہیں ہے۔