قلم بولتا ہی رہے گا
Reading Time: 5 minutesروخان یوسفزئی
دنیا میں بعض لوگ اپنے شعبہ ہائے زندگی میں ایسے بھی پائے جاتے ہیں جن کے بارے میں کچھ کہنے یا لکھنے کے لیے کسی لمبی چوڑی تمہید، تعارف اور تعریف کی ضرورت ہی نہیں ہوتی کہ ان کا نام آتے ہی وہ خود ہی اپنی پہچان کرا دیتے ہیں۔ اس مصرعہ کے مصداق کہ ”آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے“ اور ایسے ہی لوگوں میں ایک نام حماد حسن کا بھی لیا جا سکتا ہے جنہوں نے نہ صرف اپنی مادری زبان پشتو میں ایک بہترین تخلیق کار کے طور پر اپنی الگ پہچان پیدا کی ہے بلکہ اردو زبان میں بھی ایک اچھے معیاری شاعر کی حیثیت سے ڈھیر ساری مختلف آوازوں اور رنگوں میں اپنی منفرد آواز نکالنے میں کامیاب ٹھہرے ہی نہیں بلکہ اپنا منفرد رنگ بھی جما کر دکھایا ہے۔
موصوف کے ساتھ میری بہت پرانی ادبی اور سماجی رفاقت ہے، ہم دونوں ایک طرح کے ”کلی وال“ یعنی صوابی وال ہیں اور ان کے خاندان کے بیشتر افراد کے ساتھ میرا قریبی تعلق، دوستی اور غمی خوشی کا مربوط رشتہ ہے مگر جو تعلق اور رشتہ میرے اور حماد حسن کے درمیان ہے وہ دیگر رشتوں کے مقابل کئی حوالوں سے بہت گہرا، پیارا، پرخلوص اور مضبوط بنیادوں پر استوار ہے۔ وہ یہ کہ ہم دونوں ایک ہی ادبی مدرسے ”دساھولیکونکیو مرکہ“ سے اگر ”سندیافتہ“ نہیں ہیں مگر فارغ التحصیل ضرور ہیں۔ ہم دونوں کے ادبی اور تنقیدی استاد اور مرشد علامہ قلندر مومند رہے ہیں۔ اور ساھو لیکونکیو مرکہ نے ہماری ذہنی، ادبی، تنقیدی اور علمی آبیاری میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مرکہ کے ہفتہ وار تنقیدی مجالس میں حماد حسن ان چند گنے چنے نوجوان تخلیق کاروں اور نقادوں میں شامل رہے جن کے کلام اور تنقیدی رائے کو قلندر مومند سمیت دیگر شرکاء بھی بڑے غور سے سنتے اور اہمیت دیتے تھے۔ بہرحال یہ ایک الگ قصہ ہے جو ”دو چار برس کی بات نہیں“ اور اگر میں اپنی ان یاداشتوں کا ذکر کرنا شروع کر دوں تو اپنے متعلقہ موضوع سے بہت دور ماضی کی میٹھی اور ناقابل فراموش وادی میں گم ہو جاؤں گا اور پھر وہاں سے پلٹ کر آنا مشکل ہو جائے گا۔
بات کرتے ہیں حمادحسن کے کالموں پر مشتمل کتاب ”قلم بولتا رہا“ تو اس سلسلے میں میری ذاتی معلومات کے مطابق جس دن سے حماد حسن نے پاؤں پاؤں چلنا سیکھ لیا اور اپنے گھر کے اردگرد ماحول پر نظر دوڑائی تو جون ایلیا کی طرح انہیں بھی اپنے گھر میں چاروں طرف کتابیں ہی کتابیں نظر آئیں، یعنی اکثر لوگوں کے گھروں میں کتابیں ہوتی ہیں مگر حماد حسن کا گھر ہی کتابوں میں تھا۔ مطلب حماد حسن کی ذہنی پرورش اور تربیت میں ان کے والد شیخ الحدیث والقران مولانا طاہر صاحب کا، جو صوبے کی ایک بڑی علمی، سماجی اور دینی ہستی ہیں، بھی بہت بڑا کردار رہا ہے۔ کہنے کا اصل مطلب یہ کہ علم، قلم اور کتاب سے ان کا جنم جنم کا رشتہ رہا ہے جو اب بھی قائم و دائم ہے، وہ بلا کے پڑھاکو انسان ہیں مطلب ایک کثیرالمطالعہ لکھاری ہیں اور انہیں اس طرح ہونا بھی چاہئے کیونکہ وہ بطور کالم نگار جن موضوعات پر قلم اٹھاتے ہیں اگر وہ ان موضوعات پر جانکاری نہ رکھتے ہوں تو پھر ان کا قلم کیسے بولتا رہتا یا انشاء اللہ بولتا رہے گا؟ اس کے علاوہ ان کا اپنا ذاتی مشاہدہ، تجربہ اور تجزیہ بھی ان کی علمیت اور حالات حاضرہ سے باخبری کا بین ثبوت ہے۔ اور پھر کمال کی بات یہ بھی کہ وہ واقعات اور حالات کو ایک تخلیق کار کی نظر سے دیکھتے اور پرکھتے ہیں مگر اس کا اظہار ایک تجربہ کار کالم نگار کے طور پر کرنے کا سلیقہ بھی خوب جانتے ہیں۔ انہیں اس بات کا بخوبی علم ہے کہ شعبہ صحافت میں کالم لکھنے کے لیے کن کن لوازمات اور اصولوں کی ضرورت ہوتی ہے اور کالم لکھنے کے لیے کون سی زبان یعنی اسلوب اختیار کرنا چاہئے۔ ساتھ ہی وہ کالم کی مختلف اقسام کے بارے میں بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ فلاں موضوع پر کس انداز اور لب ولہجے میں قلم اٹھانا چاہئے۔ چونکہ اب ان کا نام ملک کے نامی گرامی کالم نویسوں میں لیا جاتا ہے اور انہیں بھی اس بات کا اچھی طرح احساس ہے اس لیے ملک کی موجودہ سیاسی، معاشی، ادبی اور تہذیبی صورت حال کے ساتھ ساتھ وہ دنیا کی بدلتی ہوئی سیاسی اور اقتصادی صورت حال پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں اور جو کچھ لکھتے ہیں اس میں ان کی جرات، بیباکی اور باعلمی خود بول اٹھتی ہے۔ اپنے دعویٰ کو سچ ثابت کرنے کے لیے ان کی مذکورہ کتاب سے متعدد اقتباسات بطور دلائل بھی پیش کر سکتا ہوں مگر اس کالم کا دامن گا شاید اس کی اجازت نہ دے، لہذا چاہتا ہوں کہ آپ خود ایک بار سیاسی و مذہبی نظریات سے بالاتر ہو کر ان کی کتاب ”قلم بولتا رہا“ پڑھنے کی زحمت گوارہ کر لیں تو مان جائیں گے کہ میں نے حماد حسن کی قلم کاری کے بارے میں نہ کسی مبالغے سے کام لیا ہے اور نہ ہی انہیں خوش کرنے کے لیے اپنی دوستی اور تعلق کا ثبوت پیش کیا ہے۔ بلکہ خدا گواہ ہے کہ بطور ایک ادنیٰ صحافی کے ملک کے مختلف بڑے بڑے کالم نگاروں کے کالمز اور تجزیے پڑھنا اپنا روزکا معمول بن چکا ہے مگر جب بھی حماد حسن کا لکھا ہوا کوئی کالم سوشل میڈیا یا کسی اخبار میں پڑھتا ہوں تو حیرت بھی ہوتی ہے اور ساتھ فخر بھی محسوس کرتا ہوں۔ حیرت اس بات پر کہ بطور ایک پکے اور کھرے صوابی وال پختون کے اردو زبان، اس کے محاروں اور ضرب المثال پر اتنا اچھا عبور اور فخر اس بات پر کہ موصوف اپنا بہت قریبی دوست اور قلم قبیلے کا ساتھی ہے۔ ”قلم بولتا رہا“ میں شامل کالمز سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ حماد حسن ملک کے ان لکھاریوں کی صف میں کھڑے قلم کار ہیں جو صحافت کو اب بھی بطور ایک مشن سمجھتے ہیں اور جوکسی ستائش کی تمنا اور صلے کی پروا کیے بغیر ”جو دل پے گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے“ کو اپنا ایمان اور دھرم سمجھتے ہیں، جو قلم کی حرمت اور الفاظ کے تقدس پر مرمٹنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔
صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے اور دورحاضرکی جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی نے تو آج صحافت کو باقاعدہ ایک موثر اور منظم سائنس کا درجہ دے رکھا ہے۔ دیکھا جائے تو خبریں تو ملک کے تمام اخباروں میں تقریباً یکساں چھپتی ہیں اور پھر سوشل میڈیا تو اب ہمیں پل پل کی خبر سے باخبر رکھتا ہے مگر کسی اخبار یا ویب سائٹس کی منفرد پہچان اس میں چھپنے والے کالم اور تجزیے ہوتے ہیں جو پڑھنے والوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں اور اس اخبار یا ویب سائٹس کے دیکھنے اور پڑھنے والوں کی تعداد میں اضافہ کرتے ہیں لہذا صحافت میں کالم کو غیرمعمولی اہمت حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے معتبر صحافیوں کو بھی اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کے لیے کالم ہی کا سہارا لینا پڑتا ہے کہ کالم ایک طرح شخصی صحافت کہلاتا ہے۔
جہاں تک حماد حسن کے کالموں کا تعلق ہے تو ان میں اتنا متنوع، منفرد اور دلچسپ مواد موجود ہے جو پڑھنے والے کو اپنی انگلی سے پکڑ کر ساتھ چلنے پر مجبور کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حماد حسن نے ”قلم بولتا رہا“ کی شکل میں اردو صحافت کو منفرد موضوعات پر مبنی کالم ہی نہیں دیئے ہیں بلکہ سوچ و فکر اور نظریات کے نئے نئے دروازے بھی وا کیے ہیں۔ انہوں نے بڑے جرات مندانہ انداز میں ملک کے مسائل و معاملات کے متعلق اپنا نکتہ نظر قارئین تک پہنچایا ہے۔ اور اپنے پیش رو اردو اور پشتو کے ان نامور ادیبوں کی روایت کو برقرار رکھا ہے جنہوں نے ادب کے ساتھ ساتھ صحافت میں بھی ایک نام اور مقام پیدا کیا ہے۔
حماد حسن میں وہ تمام اوصاف موجود ہیں جو ایک کامیاب اور بہترین کالم نگار کے لیے ضروری سمجھے جاتے ہیں یعنی اعلیٰ تعلیم یافتہ، وسیع المطالعہ، زبان و بیان پر عبور، حس مزاح، حالات حاضرہ سے باخبری اور صحافتی قوانین اور ضابطہ اخلاق سے واقفیت کے ساتھ ساتھ ان میں تخلیقی صلاحیتوں کا بے قرار ابلتا ہوا چشمہ۔ آخر میں حمید ماشوخیل کا یہ شعر حماد حسن کی نذر کرتا ہوں کہ
چہ لہ خو خو مڑنوں دے میدان یوڑو
شاباش شاباش د حمید فکرہ تورزنہ
(جو اچھے اچھے شاہسواروں سے میدان جیت لیا، حمید کی بہادر فکر! آپ کو شاباش دیتا ہوں)