محبوب نے مندر کا رخ کر لیا
Reading Time: 3 minutesعزیز ترکلانے
پاکستان میں گذشتہ دو سال میں صرف ایک منصوبہ بڑے آب وتاب سے مکمل کیا گیا، میڈیا نے بھی بھرپور کوریج دی۔ایسا لگ رہا تھا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان اب سکھ مملکت میں تبدیل ہو گیا ہے۔ حتی کہ مسلمانوں کا ۱۲ ربیع الاول بھی بابا گرونانک کے ذکر کے ہنگام کہیں گم ھو کے رہ گیا تھا۔ اور اب شاید ھرسال ایسا ہوگا۔
ایسے میں جب نواز گورنمنٹ کے باقی ھر منصوبے کو منجمد کردیا گیا ھے، اسلام آباد کے مندر کا واحد پراجیکٹ اتنا خوش قسمت اور بابرکت کیوں نکلا کہ انجماد کے فریزر میں جگہ نہ پاسکا اور بڑے دھڑلےسے اس پر کام کا آغاز کردیا گیا۔
اسلامی جمھوریہ پاکستان کے نوآباد دارالخلافے کے مرکز میں ایک بت کدے کی تعمیر کی شرعی پوزیشن پر علما کی آرا آچکی ھیں مگراس سے قطع نظر، کیا صاحبان اقتدار کے طویل بیڑے میں ایسا ایک رجل رشید بھی شامل نہ تھا جو توجہ دلاتا کہ بابا یہ اقدام اس وقت سیاسی طور سے ایک بلنڈر ھوگا اور خاص طور پر گذشتہ ایک سال سے سنگینوں کے سائے میں حبس بے جا میں رکھے گئے کشمیریوں کو پاکستان سے ناقابل تلافی حد تک مایوس کردے گا۔
مدینے کی ریاست کانام لینے والی حکومت سے عوام اور خود اس کی سپورٹروں کی یہ توقع بجا تھی کہ اب قانونی، تعیلمی، معاشی اور ثقافتی شعبوں میں اسلامایزیشن کے منجمد کام کا نئے سرے سے آغاز ھوگا، پارلیمنٹ میں اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات زیرغور آئیں گی اور گزشتہ حکومتوں کی کرپٹ پریکٹیسز دھرانے سے اجتناب کرتے ہوئے مافیاز کو لگام ڈالتے ھوئے ایک استحصال سے پاک فلاحی پاکستان کی منزل کی جانب قدم اٹھائے جائیں گے۔
حکومت کی ترجیحات کا رخ گوردواروں، مندروں کی جانب دیکھتے ھیں اور نظر آرھا ھے کہ مافیاز تو کابینہ کے اندر براجمان ھیں تو تحریک انصاف کے ان نوجوان جوشیلے حمایتوں کے ہاتھوں میں بھی امید کے وہ چراغ اب بجھنے لگے ھیں جو دھرنے اور الیکشن کیمپین کے دوران انھیں تھما دیے گئے تھے۔
شریعت اقلیتوں کے لیے ان کےعبادت خانوں کے اھتمام اور تحفظ کی بڑی فراخ دلانہ گنجائش دیتی ھے اوران کی عبادت کے حق کو بنیادی حق تسلیم کرتی ھے. لیکن حساس معاملات میں اندھے اقدام ھمیشہ انارکی کا سبب بنتے ھیں۔ حکمرانوں کو معلوم ھونا چاہیے کہ ان کا ھر اقدام پوری قوم کو متاثر کرتا ھے، درست کام بھی اگر غلط وقت پر اور غلط انداز سے کریں گے تو ملک کو نقصان ھوگا۔ پی آئی اے کے پائلٹس کے لائسنس کا حالیہ معاملہ اس بات کی زندہ مثال ھے۔
کرپشن سے شدید نفرت ھے اور اسی وجہ سے نواز شریف اور زرداری صاحبان کو سخت ناپسند کرتا ھوں لیکن جب محترم وزیراعظم نے دیار غیر کے شھر واشنگٹن میں ایک جلسے میں اپنے ملک کے لیڈروں کی کرپشن کا ذکر کیا تو صاف محسوس ھوا کہ محض اپنے جوشیلے سپورٹروں کو خوش کرنے کے لیے ملک کی ساکھ کو مزید خراب کیا گیا۔
اسلام آباد کے اندر سید پور کے مقام پر ایک خوبصورت تاریخی مندر موجود ھے اور اس کی دیکھ بھال بھی کی جاتی ھے، ایسے میں پورے شھر کے صرف سو ایک سوپچاس ھندووں کے لیے ایک نیا بڑا مندر بنانے کا کوئی معقول جواز کیسے پیدا کیا جاسکتا ھے، سوئے اس کے کہ نواز گورنمنٹ جس نام نھاد اور بانجھ CBMs کے راستے پر گامزن تھی، اسی پر آگے بڑھا جائے۔
حکومت کو اپنے انتخابی ایجنڈے پر واپس آنا چاھیے اور سپورٹرز بھی اسی ایجنڈے کی حفاظت پرتوجہ مرکوز رکھیں۔ یہ ان کی ذمہ داری ھے۔ مافیاز بڑے خطرناک ھوتے ھیں خاص طور پر اس وقت جب یہ گھر کے اندر موجود ھوں۔ مدینے کی ریاست کا نعرہ بڑامقدس نعرہ ھے، اس کی تدنیس کا وبال بھی بڑا سخت ھوگا۔
آخر میں اپنا ایک شعر بطور مزاح
وس وایہ عزیزگلہ پسے کفر تہ ورگڈ شم!
جانان خو دکعبے پہ زیے مندر تہ مخہ وکڑہ
محبوب نے تو مسجد کے بجائے مندر کا رخ کرلیا تو اب کیا میں اس کی خاطر کفر کو بھی گلے لگاؤں گا؟