پاکستان24 متفرق خبریں

بینک کے متعدد کھاتہ دار لاکھوں سے محروم

جولائی 9, 2020 3 min

بینک کے متعدد کھاتہ دار لاکھوں سے محروم

Reading Time: 3 minutes

خالد عزیز ۔ ایڈیٹر رپورٹنگ
وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے پشاور، ڈی آئی خان اور ایبٹ آباد سرکلز کو گزشتہ کچھ عرصہ کے دوران ایسی متعدد شکایات موصول ئی ہوئی ہیں جن کے مطابق نامعلوم جرائم پیشہ افراد حبیب بینک کے کھاتہ داروں کو آفیشل یو اے این نمبر سے فون کر کے معلومات حاصل کرنے کے بعد ان کے کھاتوں سے لاکھوں روپے چوری کر چکے ہیں۔


ذرائع کے مطابق یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کسی بینک کے کھاتہ دار آفیشل نمبر سے آنے والی فون کالز کے ذریعے اس طرح کے فراڈ کی شکایت کر رہے ہیں جبکہ شکایت کنندگان میں سول ایجنسیوں حتیٰ کہ خود حبیب بینک کے منیجر سطح کے ملازم شامل ہیں۔


سائبر جرائم کی تفتیش پر مامور ایف آئی اے کے ایک سینئیر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حبیب بینک کی مجموعی اور خاص کر اس بینک کے موبائل ایپلی کیشن کی غیر تسلی بخش سیکیورٹی ان وارداتوں کی وجہ ہو سکتی ہے جبکہ پی ٹی اے کی عدم دلچسپی اور موبائل فون کمپنیوں کی طرف سے عدم تعاون پر مبنی رویہ بھی ان جرائم کی روک تھام کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

سائبر وارداتوں کی تفصیل بتاتے ہوئے مذکورہ اہلکار نے کہا کہ سائنسی بنیادوں پر کیے جانے والے ان منظم جرائم میں جرائم پیشہ افراد ملک کے مختلف شہروں میں متعدد افراد کے نام پر جعل سازی کے ذریعے موبائل سم حاصل کرتے ہیں۔ ان سمز کی بنیاد پر سیلولر کمپنیوں کی جانب سے فراھم کردہ رقومات کے تبادلے کی سروسز، خاص کر جیز کیش اکاوونٹ بنائے جاتے ہیں اور انہی سمز کے ذریعے موبائل فون پر انٹرنیٹ سروس حاصل کی جاتی ہے۔

اہلکار کے مطاق جرائم پیشہ افراد مختلف طریقوں سے کھاتہ داروں کی معلومات حاصل کرتے ھیں اور ان کے کھاتوں سے پیسے چراتے ھیں تاھم اس سلسلے میں پہلی مرتبہ یہ شکایات سامنے آ رھی ھیں کہ شکایت کنندگان کو باقاعدہ حبیب بینک کے آفیشل نمبر سے فون کیے گئے جس کی وجہ سے اسی بینک کے منیجر لیول کے ملازم بھی ان جرائم پیشہ افراد کے جھانسے میں آنے سے بچ نہ سکے۔

اہلکار نے بتایا کہ بظاہر جرائم پیشہ افراد حبیب بینک کا یو اے این نمبر ہیک کر کے کھاتہ داروں کو فون کرتے ہیں۔ ان کے مطابق ابھی تک مذکورہ ایف آئی اے سرکلز میں کسی دوسرے بینک کے حوالے سے یہ شکایت نہیں آئی کہ ان کا آفیشل نمبر ہیک ہو چکا ھو-


ذرائع کے مطابق کھاتہ دار کی معلومات حاصل کرنے کے بعد چوری کئے گئے پیسے متعدد جیز کیش اکاونٹس میں بھیجے جاتے ھیں- چند منٹ کے اندر اندر یہ رقوم مختلف شہروں میں ریٹیل مراکز سے نکلوائی جاتی ھیں- ذرائع کے مطابق یہ ریٹیلرز شناختی کارڈ اور فون نمبر کی معرفت آنے والی رقوم تو مکمل چھان بین کے بعد صرف متعلقہ شخص کو ھی ادا کرنا یقینی بناتے ھیں لیکن جیز کیش یا کسی بھی اس طرح کی سروس کے کھاتہ داروں سے صرف ان کا پاسورڈ طلب کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے جرائم پیشہ افراد کے لیے جعلی شناختی کارڈ اور سمز کی بنیاد پر بنائے گئے کھاتوں سے چوری کی رقوم نکالنا آسان ہو جاتا ھے اور ایف آئی اے کے لئے اصل ملزمان تک پہنچنا مزید مشکل ہو جاتاہے۔

ایف آئی اے اھلکار کے مطابق جرائم پیشہ افراد ملک کے مختلف شہروں سے ایک منظم نیٹ ورک کے ذریعے یہ وارداتیں کرتے ھیں تاکہ تفتیشی اداروں کیلئے دور دراز شہروں میں تفتیش قابل عمل نہ رھے-ایف آئی اے ان جرائم پیشہ افراد کا کھوج لگانے کیلئے انٹرنیٹ پروٹوکول سے بھی مدد لیتا ھے تاھم یہاں بھی ایک ٹیکنیکل مسئلے کی وجہ سے ذیادہ کامیابی حاصل نہیں ہوتی۔

ذرائع کے مطابق صارف جب بھی سیل فون کے ذریعے انٹرنیٹ استعمال کرتے ھیں تو ان کے نمبر کے تعلق سے ایک آئی پی ایڈریس بن جاتا ھے جسے ٹریس کیا جا سکتا ہے لیکن پاکستانی انٹرنیٹ کمپنیاں ایک آئی پی ایڈریس سینکڑوں فون نمبرز کو دیتی ھیں جس کی وجہ سے تفتیش آگے بڑھنے سے رہ جاتی ہے۔

ذرائع کے مطابق اگر انٹرنیٹ کمپنیاں ہر صارف کو مخصوص آئی پی ایڈریس دیں تو سائبر جرائم نہ ھونے کے برابر رہ جائیں گے-

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے