سوشل میڈیائی دوستیاں اور لکھاری
Reading Time: 3 minutesیہ سوشل میڈیا (فیس بک) بھی بڑی عجیب ہے، وہ لوگ جنہوں نے ساری زندگی آپ کی ذات اور نظریات سے نفرت کی ہے وہ بھی آپ کو درخواست دوستی بھیج دیتے ہیں، حد ہے۔
جب آپ ان کی درخواست کو قبول نہیں کرتے اور بلاک کر دیتے ہیں تو یہ پریشان ہو جاتے ہیں۔ زندگی کا اولین سبق یہ ہے کہ محبت اور تخلیق کی اس زندگی میں حسد اور انحطاط سے ہر گز راہ و رسم نہ بڑھائیں۔ جو بھی آپ کے پیداواری ذہن کو پریشان کرنے کی کوشش کریں، انہیں وہیں چھوڑ آئیں جہاں سے وہ نکلے ہیں۔ فکر نہ کریں اس سے کسی محبت کا نقصان نہیں ہوگا۔
صرف ان سے محبت کریں جو آپ سے محبت کرتے ہیں۔
ذرا تصور کریں کہ آپ کسی لکھنے والے کے ساتھ جو سب سے زیادہ بے عزتی کا اظہار کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ اسے اور اس کی کاوشوں کو نظرانداز کر دیں۔ جب وہ آپ کی تحاریر اور آپ کی سوچ کو برسوں لاتعلق رہ کر مسلسل نظرانداز کریں تو یہ اچھی طرح سے سمجھ لیں کہ وہ آپ کی سوچ اور شخصیت کی نفی کرتے ہیں۔
اس سے نمٹنے کے دو طریقے ہیں، اس طرح کی بے توجہی کے سامنے ہار مان کر سوچنا اور لکھنا چھوڑ دیں یا خود پر محنت کر کے مزید نکھار لائیں۔ مجھے جب بھی نظر انداز کیا گیا تو میں نے ہمیشہ دوسرا راستہ اختیار کیا۔
ایک بار ایک شخص نے مجھ سے کہا کہ ‘تم اچھا نہیں لکھتے‘ اور اسی صبح ابن انشاء نے میرا مضمون "وادی جہالت میں گمشدہ” پڑھنے کے بعد انیس دہلوی صاحب کے ساتھ مجھے مدعو کیا تھا، اس وقت میری عمر محض انیس برس تھی۔ میں نے برا لکھاری کہہ کر تضحیک کرنے والے شخص کی بجائے ابن انشا کی تعریف کا اتباع کیا- میں کبھی بھی ٹالسٹائی بلکہ اس کے سائے کو بھی نہیں پہنچ سکا لیکن ڈٹے رہنے اور مزید بہتر بننے کی خواہش اور ہمت نے مجھے تھوڑا سا اور خوش اسلوب بنا کر میری زندگی میں ایک خفیف سی نفاست شامل کر دی۔ نتیجتا میں بچ گیا اور آج اپنا مختصر سا سفر جاری رکھے ہوئے ہوں۔
افسوس کی بات ہے کہ وہ سب دوست بننا چاہتے ہیں تاکہ جان بوجھ کر پھر وہی نظراندازی والا عمل دہرا سکیں۔ جب انہوں نےآپ کے خیالات کو نظر انداز کرنا ہے اور بے توجہی ہی برتنی ہے تو آخر کیوں وہ آپ کی فہرست یاراں میں شامل ہونا چاہتے ہیں؟ یہ بات کم از کم میری سمجھ سے بالاتر ہے۔
میں ان لوگوں کا پیچھا نہیں کرتا جو میری زندگی سے بےدخل ہیں۔ اس طرح کے افراد سے ہر قیمت پر جان چھڑا کر آگے بڑھ جائیں۔ آپ کسی ایسی تباہ کن زہریلی رفاقت میں نہیں پنپ سکتے، جہاں کوئی شخص آپ کے ذہن میں خود سے متعلق شک پیدا کرنا یا آپ کی ٹانگیں کھینچنا چاہتا ہو۔
آپ کی نیت لوگوں کا ہاتھ تھام کر انہیں اوپر کھینچنا ہونی چاہئے۔ یہ سچ ہے کہ ممکن ہو کہ ان کی بجائے آپ ہی ان تمام پریشانیوں کا سبب ہوں، لیکن آپ کو کہیں سے تو ازسرنو شروعات کرنی ہے اور تخلیقی پیداواری بننے کے لئے محنت کرنی ہے۔ دوسروں کی کاوشوں کا احترام کریں، ان کی تحاریر کے لئے پسندیدگی کا اظہار کریں، ان سے سیکھیں نہ کہ کسی اندھیری رات کے چور کی مانند دبے پاوں دیواریں پھلانگتے رہنے میں زندگی بسر کریں۔
دوسروں پر مسموم ہونے کا الزام نہ لگائیں اگر خود آپ کی اپنی ذات اس کا منبع ہے۔ اس مسمومیت سے جان چھڑائیں اور ان لوگوں سے بچیں جو آپ کے اندر اس کا اضافہ کرتے ہیں۔ اس مسمومیت کو رقیق کریں – مقابلہ بازی کو رقیق کر کے پیداوریت ، شائستگی ، امید اور خوبصورتی کی ستائش میں اضافہ لائیں۔
آپ واضح تبدیلی دیکھیں گے کہ آپ کو دوسروں کی ٹانگیں کھینچنے کا کوئی خبط نہیں رہے گا، بلکہ اونچی ، طویل اور بہتر اڑان بھرنے کی طاقت اور ہمت پیدا ہوگی۔
جینے کا منتر یہ ہے کہ سوشل میڈیا یا حقیقی زندگی میں کبھی سطحی تعلقات مت رکھیں۔ اپنی ہم خیال ڈار مرتب کریں اور ان کے ساتھ اڑان بھریں۔ اگر آپ کبوتر ہیں لیکن عقابوں کی صحبت کا شوق رکھتے ہیں تو وہ آپ کو نوچ ڈالیں گے۔ زندگی میں اپنی ہم خیال جگہ اور اپنا ہم خیال مجمع تلاش کریں۔ احمق رہیں اور ہر وقت متجسس رہیں، سیکھتے رہیں، اور غلط سیکھے کو بھلا کر ازسرنو سیکھتے رہیں.
تحریر و تصویر: اقبال لطیف
مترجم: شہزاد ناصر