ٹک ٹاک .. لیکڈ ویڈیوز کا نیا پلیٹ فارم
Reading Time: 3 minutesپاکستان میں انٹرنیٹ کے استعمال میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ ڈیٹا ریپورٹل ویب سائٹ کے مطابق سات کروڑ 60 لاکھ پاکستانی انٹرنیٹ استعمال کر رہے ہیں جبکہ صرف سال 2019 میں اور 2020 میں ایک کروڑ 10 لاکھ صارفین کا اضافہ ہوا ۔
پاکستان میں مختلف ایپلی کیشنز کی وجہ سے انٹرنیٹ کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے ، پاکستان میں انٹرنیٹ استعمال کرنے افراد میں سے تقریبا 90 فیصد افراد فیس بک استعمال کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ یوٹویب، ٹوئٹر، انسٹا گرام اور ٹک ٹاک کا استعمال بھی کیا جاتا ہے لیکن گزشتہ 2 سال میں انسٹاگرام اور ٹک ٹاک کے یوزرز کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے کو ملا۔
پاکستان میں 3 کروڑ سے زائد افراد سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں ۔ صرف اپریل 2019 سے جنوری 2020 تک 2 کروڑ 40 لاکھ افراد نے سوشل میڈیا استعمال کا استعمال کرنا شروع کیا یا یوں کہہ لیجیے کہ اتنی بڑی تعداد میں سوشل میڈیا صارفین کا اضافہ ہوا۔
پاکستان میں تقریبا 3 کروڑ فیس بک صارفین موجود ہیں ۔ ٹک ٹاک دنیا کی 39 زبانوں میں موجود ہے ، دنیا بھر میں 50 کروڑ افراد ٹک ٹاک استعمال کر رہے ہیں جبکہ پاکستان میں تقریبا ایک کروڑ 90 لاکھ ٹک ٹاک کے اکاونٹس موجود ہیں۔
پاکستان میں ٹک ٹاک صارفین میں بڑا نام حریم شاہ کا ہے ان کی مختلف ویڈیوز خاص کر پاکستان کے قومی محمکموں کے دفاتر میں بنائی گئی ویڈیوز کو اتنی شہرت ملی کہ وہ پاکستانی میڈیا پر انٹرویوز دیتی نظر آئیں۔
ٹک ٹاک صارفین میں اضافہ تو ٹھیک لیکن آج کل آئے روز کسی نہ کسی ٹک ٹاک سٹار کی فحش ویڈیو لیک ہو رہی ہے۔ کئی معروف ٹک ٹاک سٹارز دیگر ایسی خواتین کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر موجود ہیں اور ان ویڈیوز کی سب سے زیادہ مانگ فیس بک پر کی جاتی ہے۔ گو کہ کئی خواتین نے ان ویڈیوز کو جعلی قرار دے رکھا ہے لیکن بہرصورت مسئلہ تو اپنی جگہ موجود ہے۔ گذشتہ سال رابی پیر زادہ کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد سے ایک سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔
اسی صورتحال کے پیش نظر پاکستان کے صوبے پنجاب میں رکن صوبائی اسمبلی سیمابیہ طاہر کی جانب سے ایک قرار داد جمع کرائی گئی ہے جس کے متن کے مطابق پاکستان میں ٹک ٹاک کے ذریعے مذاہب کا مذاق اڑیا جا رہا ہے، بے حیائی پھیلائی جا رہی ہے اور بے سرو پا گفتگو بھی کی جا رہی ہے۔
قرارداد میں یہ بھی لکھا گیا کہ ٹک ٹاک اداکاروں پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں اور نہ ہی اس بارے کوئی قانونی گرفت ہو رہی ہے جبکہ ان ویڈیوز کو بلیک میلنگ کیلئے بھی استعمال کیا جا رہا ہے جبکہ وجہ سے کئی افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں ، قرار داد میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ٹک ٹاک پر پابندی لگائی جائے۔
ایسے بھی کئی واقعات موجود ہیں کہ ٹاک ٹاک ویڈیوز بنانے کیلئے اسلحہ بھی دکھایا گیا اور کھیل کھیل میں اسلحلہ چل جانے سے اموات بھی ہو چکی ہیں۔
خیر یہ تو پھر بھی ویڈیوز کی بات تھی لیکن ہمارے معاشرہ میں سیکس کی ایسی بھوک چل رہی ہے کہ آج کل تو ایک آڈیو کال بھی شیئر کی جا رہی ہے جس میں ایک لڑکی اپنی سکس سٹوری اپنی کسی دوست سے شیئر کر رہی ہے۔
اگر کوئی بھی ویڈیو یا آڈیو لیک ہوتی ہے تو اس میں 2 افراد کا ہی کردار ہو سکتا ہے یا تو بنانے والے کا یا پھر جس کو بنا کر بھیجی گئی ہے اسکا ۔
آخر کیوں یہ ویڈیوز لیک ہو رہی ہیں ؟ کچھ پاکستانیوں کا ماننا ہے کہ شہرت کیلئے ویڈیوز لیک کروائی جاتی ہیں جبکہ دیگر اس بات یکسر مسترد کرتے ہیں، دونوں بات کو اگر مان لیا جائے تو یہی نظر آتا ہے کہ اگر شہرت حاصل کرنے کیلئے عریانی ضروری ہو رہی ہے تو یہ نقطہ قابل توجہ ہے اور اگر کوئی آپ کی ویڈیوز لیک کر رہا ہے تو آپ کسی کو بھیج ہی کیوں رہے۔ دونوں صورتوں میں قصور ویڈیو بنانے والے کا ہی نظر آتا ہے۔
اور ان یہ ٹک ٹاک سٹارز کو اس سے مالی آمدن ہو رہی ہے اور ایک لیک ویڈیو کے بعد انکے فالورزکی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے تو بھی یہ بات توجہ طلب ہے۔