متفرق خبریں

ڈی جی نیب عرفان منگی کے تقرر و اہلیت پر عدالتی سوال

اگست 5, 2020 4 min

ڈی جی نیب عرفان منگی کے تقرر و اہلیت پر عدالتی سوال

Reading Time: 4 minutes

سپریم کورٹ نے شریف خاندان سے تفتیش کے لیے تشکیل دی گئی پاناما جے آئی ٹی میں شامل ایک رکن ڈی جی نیب راولپنڈی عرفان نعیم منگی کی اہلیت اور تقر پر سوالات اٹھائے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ڈی جی نیب راولپنڈی عرفان نعیم منگی سے پوچھا ‘آپ کی تعلیم اور تنخواہ کیاہے؟

عرفان منگی بولے ‘میں انجینئرہوں، میری تنخواہ چار لاکھ بیس ہزار روپے ماہانہ ہے، میرا فوجداری مقدمات کا کوئی تجربہ نہیں۔’

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایک انجینئر نیب کے اتنے بڑے عہدے پر کیسے بیٹھا ہوا ہے؟۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ عرفان منگی کس کی سفارش پر نیب میں گھس آئے، مارشل لا میں قانون کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں،ہمیں اللہ سے زیادہ ایک ڈکٹیٹر کا خوف ہوتا ہے، مارشل لا سے بہتر ہے دوبارہ انگریزوں کو حکومت دے دی جائے۔

رپورٹ: جہانزیب عباسی

سپریم کورٹ میں نیب افسران کے نام پر پیسے لینے والے ملزم محمد ندیم کی ضمانت کی درخواست پر جسٹس مشیر عالم اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل دو رکنی بنچ نے سماعت کی۔عدالت نے ڈی جی نیب عرفان نعیم منگی کی تقرری اور اہلیت پر سوال اٹھا دیا۔عدالت نے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے نیب کے تمام ڈی جیز کی تقرریوں سے متعلق تفصیلات طلب کر لی گئیں۔سپریم کورٹ نے چیئرمین نیب کے افسران کی بھرتی کے اختیار کا بھی نوٹس لے لیا۔

عدالت نے کہا چیئرمین نیب آئین اور قانون کو بائی پاس کر کے کیسے بھرتیاں کر سکتے ہیں،نیب کا سیکشن 28 آ ئین کے آرٹیکل 240 سے متصادم ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا محمد ندیم مڈل پاس ہے بہاولپور سے وہ کیسے نیب افسر بن کر کال کرتا تھا،ملزم نے ایم ڈی پی ایس او کو ڈی جی نیب بن کر کال کی،تفتیش کے مطابق مڈل پاس ملزم کے پاس صرف ایک بھینس ہے،ملزم کے پاس بڑے بڑے افسران کے موبائل نمبرز کیسے آگئے۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا ایم ڈی پی ایس او سمیت 22 افراد کی مختلف شکایات ملیں،ایم ڈی پی ایس او نے ڈی جی نیب عرفان منگی سے رابطہ کیا۔کیس کی سماعت کے دوران اُس وقت مقدمے میں دلچسپ موڑ آیا جب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کمرہ عدالت میں موجود ڈی جی نیب راولپنڈی سے مکالمہ کرتے ہوئے پوچھا عرفان منگی صاحب آپ کی تعلیم اور تنخواہ کیا ہے۔

ڈی جی نیب راولپنڈی عرفان نعیم منگی نے جواب دیا میں میں انجینئر ہوں،میری تنخواہ 4 لاکھ بیس ہزار روپے ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کیا آپ فوجداری معاملات کا تجربہ رکھتے ہیں۔عرفان نعیم منگی نے جواب دیا میرا فوجداری مقدمات کا کوئی تجربہ نہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ایک انجینئر نیب کے اتنے بڑے عہدے پر کیسے بیٹھا ہوا ہے؟نیب کیسے کام کررہا ہے،چیئرمین نیب کس قانون کے تحت بھرتیاں کرتے ہیں؟،چیئرمین نیب اب جج نہیں انھیں ہم عدالت بلا سکتے ہیں،عرفان منگی کس کی سفارش پر نیب میں گھس آئے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا مارشل لا میں قانون کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں،ہمیں اللہ سے زیادہ ایک ڈکٹیٹر کا خوف ہوتا ہے،مارشل لا سے بہتر ہے دوبارہ انگریزوں کو حکومت دے دی جائے،نیب عوام کے پیسے سے چلتا ہے عوام کے نوکر ہیں سب۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا ملک کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا،ہر بندہ کرسی پر بیٹھ کر اپنا ایجنڈا چلا رہا ہے،نیب جس معاملے میں چاہتا ہے گھس جاتا ہے،ہم نیب کا میڈیا ٹرائل نہیں کر رہے،ویسے بھی میڈیا والے آج کشمیر واک پر گئے ہوئے ہیں،نیب والے عوام کے ملازم ہیں،بار بار مواقع دیے مگر نیب کے غیر قانونی کام جاری ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا یہ بھی کہنا تھا نیب افسران کی نااہلی کیوجہ سے لوگ جیلوں میں سڑ رہے ہیں،لوگوں کو ڈرانے کیلئے نیب کا نام ہی کافی ہے،لگتا ہے ہمیں نیب کیلئے قانون کی کلاسز لگانا پڑیں گی،نیب کے 1999 سے اب تک کوئی رولز اینڈ ریگولیشنز بنائے ہی نہیں گئے،قواعد نہ بنانے پر نیب کے اپنے خلاف ریفرنس بنتا ہے۔

مقدمے کے تفتیشی نے عدالت کو بتایا ملزم نے عرفان منگی سمیت مختلف افسران کو اہم شخصیات بن کر کالیں کیں،ملزم کے خلاف نیب کی جانب سے مقدمہ درج کروایا گیا۔جسٹس مشیر عالم نے کہا اس کیس میں ابھی تک کسی گواہ کا ابتدائی بیان ہی نہیں لیا گیا،کیا ملزم کے فون کا فرانزک کروایا گیا۔ تفتیشی افسر نے کہا فرانزک کی ابھی تک رپورٹ نہیں آئی۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا اگر عرفان منگی کو کال کی تھی تو انکا بیان کیوں ریکارڈ نہیں کیا گیا۔

ملزم کے وکیل نے عدالت کو بتایا ملزم کے خلاف بلاوجہ مقدمات بنائے جا رہے ہیں،کسی متاثر ہ کا بیان ریکارڈ تک نہیں کیا گیا،ملزم کے خلاف پہلے نیب ریفرنس بھی بنایا گیا پھر ایف ائی ار درج کروائی گئی۔جسٹس مشیر عالم نے کہا ہم سب ریاست کے ملازم ہیں،ہم سب نے ملکر قانون کی عملداری میں حائل قوتوں کا مقابلہ کرنا ہے،اتھار ٹیز کو قانون کے مطابق گائیڈ کرنا لا آفسران کی زمہ داری ہے،قانون کا وقار بحال کئے بغیر قانون کی عملداری قائم نہیں ہو سکتی۔

سپریم کورٹ نے ملزم محمد ندیم کی ضمانت منظور کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردی۔

جہانزیب عباسی اسلام آباد میں مقیم صحافی ہیں جو ایک نجی ٹی وی کے لیے سپریم کورٹ سے رپورٹنگ کرتے ہیں۔
Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے