پاکستان24 متفرق خبریں

مطیع اللہ جان اغوا کیس: عدالت کا پولیس تفتیش پر عدم اطمینان

اگست 6, 2020 3 min

مطیع اللہ جان اغوا کیس: عدالت کا پولیس تفتیش پر عدم اطمینان

Reading Time: 3 minutes

سپریم کورٹ نے صحافی مطیع اللہ جان کے اغوا کاروں کے بارے میں پتہ لگانے میں ناکامی اور ناقص تفتیش پر اسلام آباد پولیس کے سربراہ پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔

جمعرات کو مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے عدالت نے پولیس کی تفتیشی رپورٹ کو غیر اطمینان بخش قرار دیا۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے اسلام آباد پولیس کے سربراہ عامر ذوالفقار سے کہا کہ متعلقہ محکموں کو خط لکھنے کا کلچر ختم کریں، پولیس افسران کرسی گرم کرنے کی بجائے خود جا کر متعلقہ محکموں سے معلومات حاصل کریں، وقت ضائع کرنے سے شواہد ضائع ہو جائیں گے۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ اسلام آباد پولیس کی تفتیش کرنے کے لیے تربیت ہی نہیں ہے، پولیس والے بابوں والے کام کر رہے ہیں.

رپورٹ: جہانزیب عباسی

سپریم کورٹ میں صحافی مطیع اللہ جان کے اغوا پر لیے گئے نوٹس کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔ عدالت نے آئی جی اسلام آباد پولیس کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے قرار دیا کہ پولیس رپورٹ میں متعلقہ محکموں کو خطوط لکھنے کا بتایا گیا، رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پولیس کو متعلقہ محکموں کو لکھے گئے خطوط کے جواب کا انتظار ہے.

عدالت نے اپنے حکمنامے میں لکھا کہ تفتیشی افسر خود متعلقہ محکموں میں جا کر معلومات حاصل کریں، فوجداری جرم کے کیس میں وقت بہت قیمتی ہوتا ہے، وقت ضائع ہونے کے سبب شواہد ضائع ہو جائیں گے۔

عدالت نے اسلام آباد پولیس کے سربراہ کو صحافی کے اغوا بارے تفتیش کی خود نگرانی کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے پولیس سے چار ہفتوں میں پیش رفت رپورٹ طلب کر لی۔

قبل ازیں مقدمے کی سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے آئی جی اسلام اباد پولیس کو روسٹرم پر بلاتے ہوئے ریمارکس دیے ‘آئی جی صاحب آپ کس زمانے میں بیٹھے ہوئے ہیں، آپ کے سارے افسران متعلقہ محکموں کو خطوط لکھ رہے ہیں۔’

چیف جسٹس نے آئی جی اسلام آباد پولیس کو مخاطب کرتے ہوئے مزید کہا کہ ‘خطوط لکھنے کا کیا مقصد ہے، تفتیشی افسر متعلقہ دفاتر میں جاکر معلومات اکھٹی کیوں نہیں کر رہے، وقت ضائع کرنے سے شواہد ضائع ہوں گے، خطوط بازی کی جارہی ہے، پولیس افسران بابوں والے کام کر رہے ہیں۔’

چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ متعلقہ محکموں کو لکھے گیے خطوط کا جواب آنے میں عرصہ لگ جائے گا، نوٹ بازیوں کا کلچر ختم کریں، خطوط بازیوں سے پانچ منٹ کا کام مکمل ہونے میں پانچ ماہ لگ جائیں گیے، لیباریٹری اور سی ڈی ار والوں کے پاس بیٹھ کر خود ریکارڈ حاصل کریں۔

چیف جسٹس نے آئی جی اسلام آباد پولیس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آئی جی صاحب پولیس والوں کو مقدمے کی تفتیش کی تربیت ہی نہیں، کیا پولیس ہر مقدمے کی تفتیش میں ایسا ہی کرتی ہے،پولیس کا تفتیشی افسر اپنی کرسی گرم نہیں رکھتا.

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کل جو حادثہ ہوا اس پر بھی اپ نے دو لائنوں کے رپورٹ ہمیں بھیجوا دی. آئی جی اسلام آباد پولیس نے کہا کہ ابھی اس واقع کی تفصیلی رپورٹ آنا باقی ہے۔ چیف جسٹس نے اسلام آباد پولیس کے سربراہ سے کہا کہ ‘نہ آپ سیکھنا چاہتے ہیں نہ آپ سکھانا چاہتے ہیں۔’

جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ صحافی کے اغوا کے معاملے پر چھ رکنی ٹیم بنائی گی تھی اسکی کارکردگی کیا ہے؟. اس پر کوئی جواب نہ دیا گیا.

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وہ بھی اسلام اباد پولیس کی رپورٹ سے مطمئن نہیں، ‘ہم نے دیگر محکموں سے بھی رجوع کیا ہے،ایف ائی اے اور نادرا سمیت دیگر اداروں کا جواب آنا باقی ہے۔’

جسٹس اعجاز الاحسن نے صحافی مطیع اللہ جان سے پوچھا کہ کیا آپ نے توہین عدالت کے شوکاز نوٹس کا جواب جمع کروا دیا؟

صحافی مطیع اللہ جان نے جواب میں کہا کہ ‘عدالتی حکم نامہ میں وکیل کرنے کے لیے دوہفتوں کا وقت دیا گیا تھا، پولیس کے سامنے بیان ریکارڈ کروایا، اس دوران عید کی چھٹیاں بھی آ گئیں۔ عدالتی نوٹس میں لکھا گیا تھا کہ دس اگست کے بعد سے شروع ہونے والے ہفتے میں مقدمہ سنا جائے گا، اس وجہ سے وکیل سے رابطہ کرنے اور جواب تیار کرنے میں تاخیر ہوئی، عدالت سے استدعا ہے کہ مہلت دے۔’

چیف جسٹس نے صحافی مطیع اللہ جان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا آپ وقت لے رہے ہیں اس سے آپ کا نقصان ہوگا۔ توہین عدالت کے مقدمات میں وقت اہم ہوتا ہے۔’

عدالت نے حکم نامے میں لکھا کہ مبینہ توہین عدالت کرنے والے صحافی نے وکیل کرنے کے لیے مزید وقت مانگا، وکیل کرنے کے لیے صحافی مطیع اللہ جان کو چار ہفتوں کی مہلت دی جاتی ہے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے