پاکستان کالم

وزیر اعلی گلگت بلتستان کی پہلی تقریر کے نکات اور تجزیہ

دسمبر 2, 2020 5 min

وزیر اعلی گلگت بلتستان کی پہلی تقریر کے نکات اور تجزیہ

Reading Time: 5 minutes

عبدالجبار ناصر

نومنتخب وزیراعلیٰ گلگت بلتستان محمد خالد خورشید خان 30 نومبر2020ء کو اپنے انتخاب کے بعد اپنی پہلی تقریر میں کافی پرعزم نظر آئے اور کئی ایشوز کے حوالے سے حوصلہ افزا ء بات کی ، سب سے اہم یہ کہ مرکز میں تحریک انصاف کی ٹکرائو کی پیر وی کرنے کی بجائے اپوزیشن کوساتھ لے کر چلنے کا عزم اور مل کر گلگت بلتستان کے مسائل کو حل کرنے کی اپوزیشن کو دعوت اہم ہے۔

ہم نے تقریر کا پونے 18 منٹ کے دستیاب ویڈیو کلیپ(کوشش کے باوجود باقی حصہ نہیں ملا) کا جائزہ لیا ۔ تقریر کی خاص یہ تھی کہ اپنے قائد اور وزیر اعظم عمران خان کی طرح بغیر پرچی تقریر کے زعم میں مبتلا ہوکر غلطی پر غلطی کرنے کی بجائے صاحبان عقل و دانش کی طرح لکھی ہوئی تقریر کی یا نکات لکھے ہوئے تھے۔ارکان کے شکریہ کے بعد انہوں نے اسپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے یکم نومبر 1947ء کا حوالہ دیا ،مگر یہاں پر سال میں کا فرق غالباً سہواً ہوا ۔ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کی تقریر سے ہم نے 18 نکات پر مبنی خلاصہ تلاش کیا ہے اور ساتھ ساتھ وضاحت اور تجزیہ بھی ہے ۔

1۔ جنگ آزادی 1948ء میں ہوئی۔ (غالباً یہاں سہواً 1947ء کو 1948ء بولا گیا)۔
2۔آزادی کے بعد پاکستان میں شامل ہوئے۔ (گلگت بلتستان کب پاکستان میں شامل ہوا یا کیاگیا ہے ، ممکن ہے کہ وزیر اعلیٰ کے پاس کوئی مصدقہ دستاویز ہو مگر تاریخ کے طالب علم ، پاکستانی آئین ، 28 اپریل 1949ء کا معاہدہ کراچی ، 2009ء اور 2018ء کے انتظامی حکم نامے ، اقوام متحدہ میں پاکستان کا کشمیر کیس اور پاکستان کی کشمیر پالیسی ، آزاد کشمیر کا ہائی کورٹ اور پاکستان کی عدالت عظمیٰ اس کی تردید کر رہی ہیں)۔
3۔ یہ نو زائدہ صوبہ ہے۔(یہ صوبہ کب بنا اور کس آئین و قانون کے تحت بنا ، وضاحت طلب ہے ، تاہم صوبہ نما کہہ سکتے ہیں)۔
4۔ آئینی انظمام ہونے جارہا ہے۔(ممکن ہے کہ جلد وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان آئینی انظمام کی وضاحت کریں گے )۔
5۔ یہاں حقوق کی بات ہورہی ہے مگر کئی قوتیں کام نہیں ہونے دے رہی تھیں۔ (وزیر اعلیٰ کو اس کی وضاحت بھی کرنی چاہئے کہ وہ کونسی قوتیں ہے ، جو حقیقی عوامی کے خلاف ہیں)۔
6۔ مکمل آئینی حقوق وزیر اعظم عمران خان کی سربراہی میں ملیں گے۔(وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کو اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ تحریک انصاف عبوری صوبے کے نعرے کی بنیاد پر انتخابی میدان میں اتری اور 67 فیصد سے زائد عوام نے عملاً اس نعرے کو مسترد کردیا ہے ۔ 15 نومبر 2020ء کے انتخابات میں 7لاکھ ، 59 ہزار 461 ووٹرز میں سے 4 لاکھ 64 ہزار 45 ووٹرز نے حق رائے دہی استعمال کیا یعنی 61.10 فیصد ۔ عبوری صوبے کے نعرے کی بنیاد پر تحریک انصاف اور اتحادی جماعت مجلس وحدت مسلمین کو ایک لاکھ 24 ہزار 543 ووٹ ملے ، جو مجموعی طور پر 26.83 فیصد ہے یعنی اکثریت نے اس نعرے کو مسترد کیا ہے ، اس لئے کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل تمام اسٹاک ہولڈرز کو اعتماد میں لینا ضروری ہے)۔
7۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر کاز کو نقصان پہنچائے بغیر عبوری آئینی صوبہ بنائیں گے۔(یہ کیسے ممکن ہوگا ؟ یہ بات بھی وضاحت طلب ہے)۔
8۔ سرکاری افراد کے انتخابی عمل میں مداخلت کے خلاف ہماری بھی شکایات تھیں۔(جیسے قائد حزب اختلاف نے شکایت کی کہ انتخابی عمل میں سرکاری افسران کی مداخلت ہوئی ، وزیر اعلیٰ نے بھی اس کی تصدیق کی ہے۔ ہر دو طرف کی شکایت نے الیکشن کمیشن گلگت بلتستان کے کردار کو سوالیہ نشان بنادیاہے )۔
9۔ قائد حزب اختلاف ان کا بھی شکریہ کرتے جنہوں آپ کی حمایت کی تو کام پورا ہوجاتا۔(گمان یہی ہے کہ یہاں مراد کوئی ادارہ نہیں بلکہ کوئی مقامی شخصیت یا جماعت ہوگی اور مراد کوئی ادارہ ہے تو پھر انتخابی عمل کی شفافیت سوالیہ نشان ہے)۔
10۔ گنڈا پور آئے مگر برجیس طاہر اور قمر زمان کائرہ بھی آئے تھے۔(لگتا ہے کہ وزیر اعلیٰ نے قائد حزب اختلاف کو عوامی انداز میں یہ جواب دیا ہے ، ویسے قمر زمان کائرہ اور برجیس طاہر کے زمانے میں قانونی طور پر ان کے لئے کوئی پابندی تھی اور نہ ایکٹ 2017ء کی پابندیاں تھیں ، ایکٹ 2017ء تحریک انصاف نے خود گلگت بلتستان میں لاگو کیا اور خود ہی اس کو دریائے سندھ میں پھینک دیا)۔
11۔ ہمارا کل بجٹ 63 ارب روپے ہے اور الیکشن اور کورونا سمیت سابقہ حکومت 6 ارب روپے کا خسارہ چھوڑ کر گئی ہے۔ (یہاں پر قابل غور بات یہ ہے کہ 63 ارب میں سے خطے کی اعلانیہ ذاتی آمدنی کتنی ہے اور مرکز کا حصہ کتنا ہے ؟ اگر مرکز نے اپنے حصے کی رقم فراہم نہیں کی اور خسارہ ہوا تو اس میں سابقہ حکومت قصور ہے اور نہ آئندہ حکومت کا ہوگا، اصل مجرم مرکزی حکومت ہے)۔
12۔ آئندہ 8 ماہ کے لیے ہمارے پاس 18 کروڑ روپے ہیں۔(8 ماہ کے لئے صرف 18 کروڑ روپے واقعی تشویش کی بات ہے)۔
13۔ ریگولر بجٹ کم کرکے ترقیاتی بجٹ میں اضافہ کریں گے۔(مثبت اور جائز عزم ہے)۔
14۔ صحت کے شعبے میں اس وقت تقریبا 3سے 5 فیصد خرچ ہو رہا ہے اور آئندہ سال تک یہ 15سے20 فیصد تک لیے جائیں گے اور صحت کے شعبے میں ہنگامی بنیادوں پر کام کریں گے۔(یہ بھی مثبت بات ہے اور 15 سے 20 فیصد کی بجائے 10 فیصد بھی صحت کے شعبے کے لئے مختص کی جائے تو بڑی کامیابی ہوگی اور ہنگامی اقدام کی ضرورت ہے)۔
15۔ سابقہ حکومت نے تعلیم کے شعبے میں عمارتیں کھڑی کی ہیں مگر عملہ نہیں ہے، تعلیم پر 5 سے 10 فیصد بجٹ خرچ ہورہا ہے۔ ہم یکساں نظام تعلیم اور ہر بچے تک تعلیم کی سہولت پہنچائیں گے۔(مثبت اور ضرورت کی بات کے ساتھ سابقہ حکومت کے تعلیمی اداروں کے قیام کا اعتراف بھی ہے)۔
16۔ گلگت بلتستان میں پی ٹی آئی کا مقابلہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ سے نہیں بلکہ پی ٹی آئی سے ہوا ہے۔(یہ تو کہنے کی باتیں ہیں ،سچ یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں 70 فیصد سے زائد ووٹ شخصی، علاقائی ، برداری ، خاندانی ، لسانی اور مذہبی ہے ، باقی 30 فیصد میں سے سب سے زیادہ سیاسی ووٹ بنک پیپلزپارٹی کے پاس ہے، ن لیگ نے بھی کچھ حدتک ووٹ بنایا ہے اور تحریک انصاف کا ذاتی ووٹ کتنا ہے ، اس کا فیصلہ آئندہ انتخابات کے بعد ہی کیا جاسکے گا )۔
17۔ ہم اپوزیشن کے ساتھ ملکر چلنا چاہتے ہیں۔(یہ بہت ہی مثبت اور قابل تحسین پہلو ہے اور اپوزیشن کو بھی جبری سینگ نہیں پھنسانے چاہئے )۔
18۔ غربت کے خاتمے اور ملازمتوں کی فراہمی کو ممکن بنائیں گے ۔(جن حوالہ جات کے ساتھ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان نے بات کی ہے ، وہ درست ہیں اور یہ نکتہ بھی قابل تحسین ہے، بشرطہ کے عمل ہو)۔

خلاصہ : انصاف کی بات یہ ہے کہ پہلی تقریر میں جذبات اور سیاسی مجبوریوں کی بنیاد پر ہونے والی باتوں پر درگزر سے کام لیا جائے تو پہلی تقریر حوصلہ افزاء اور مرکز میں تحریک انصاف کی بدترین ناکامی اور خلفشار کے مقابلے میں بہت بہتر بلکہ پر امید ہے۔ وزیر اعلٰی محمد خالد خورشید خان کے لئے بہترین راستہ یہی ہے کہ وہ تصادم سے بچتے ہوئے آگے بڑھیں اور اپنی تمام تر توجہ عوامی مسائل پر مرکوز کریں ، مناسب مشیروں کا انتخاب کریں ۔ گلگت بلتستان انتہائی حساس خطہ ہے ، کوئی بھی عمل اور بات کرنے سے قبل اس کے ممکنہ نتائج کو مد نظر رکھیں ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے