براڈ شیٹ انکوائری کمیشن رپورٹ کا نچوڑ کیا ہے؟
Reading Time: 2 minutesعمران شفیق ایڈووکیٹ
براڈ شیٹ کمیشن رپورٹ (از جسٹس عظمت سعید شیخ) اتنی ناقص اور سطحی ہے کہ ایک عام قاری بھی اس سے درج ذیل نتائج بآسانی اخذ کر سکتا ہے:
۱۔ نیب کے قیام کے بعد، یکے بعد دیگرے، تین سابق "جرنیل چیرمین نیب” جنہوں نے صریحاً ملکی مفادات کے برعکس معاہدات کیے اور بعد میں یکطرفہ طور پر انہیں
منسوخ بھی کر دیا، وہ سب کے سب ملکی مفادات کا تحفظ کر رہے تھے، ان سےکوئی غلطی سرزدنہیں ہوئی۔ اور کمیشن نے ان کے بیانات کوایسے درست تسلیم کیاجیسے کوئی آسمانی صحیفہ ہو اور ایک موقع پر جاکر تو کمیشن اتنا لیٹا کہ اس نے اظہار افسوس بھی کیاکہ ایسے ہیروں کی تعیناتی کاسلسلہ آخرتھم کیوں گیا؟
۲۔ ایسے احمقانہ معاہدات کرنے میں جو غلطی بھی ہوئی وہ پہلے پراسیکیوٹر جنرل آدم خان سے ہوئی، جو اب فوت ہو چکے ہیں۔
آسان حل ہے کہ معاہدات کرنے کی ساری ذمہ داری ایک مردہ شخص پر ڈال کر فائل ٹھپ کر دو۔ جو معاہدات ساری برائی کی جڑ تھے، اس کا ذمہ دار صرف ایک مردہ شخص تھا،باقی سب محب وطن تھے، حتیٰ کہ اس نااہل کو اتنے بڑے عہدے پر بھرتی کرنے والے بھی اہلیت کے بلند مرتبے پر فائز تھے۔
۳۔ براڈ شیٹ سے "سٹیلمنٹ ایگریمنٹ اور پے منٹ” سے متعلقہ تمام ریکارڈ ملک کے پانچ بڑی وزارتوں اور محکموں ___بشمول وزارت خارجہ، خزانہ، قانون، اٹارنی جنرل آفس___ سے غائب ہے۔
ملک کے تمام انٹیلی جنس ادارے اور نیب (جو خود ایک طاقتور ادارہ ہے)، اور فارن آفس وغیرہ سب یہ جاننے میں ناکام رہے کہ براڈ شیٹ کمپنی "وائنڈ اپ” ہو رہی ہے، لیکن اس اہم ترین معلومات کو خفیہ رکھنے کا تمام تر الزام ایک پرائیویٹ وکیل احمر بلال صوفی پر دھر کر باقی سب اداروں کے نیند میں
مدہوش سربراہان کو خراج تحسین پیش کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی۔
۴۔ اس رپورٹ کو پڑھ کر کہیں سے یہ محسوس نہیں ہوتا کہ یہ وہی فاضل جج ہیں جو پانامہ کیس کی سماعت کے دوران اپنی کرسی پر صرف اس لیے سکون سے نہیں بیٹھ پاتے کہ ملک "بڑے لوگوں” کرپشن کی وجہ سے دیوالیہ ہو گیا۔
اس کیس میں سارے "بڑے عہدیداران” بشمول اس وقت کے چیف ایگزیکٹو جنرل مشرف کو بے نقاب کرنے کا حسین موقع ملا تو ملبہ سارا مردہ یا پرائیویٹ افراد پرڈال دیا۔ لیکن جب بات سیاستدانوں تک پہنچی توسابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی توہین عدالت کیس کی ساری کہانی بیان کی۔ مطلب جب بات سیاستدانوں کی تو ذمہ دار اعلیٰ ترین عہدیدار وزیراعظم ہوگا اور جب نوبت آمروں اور ڈکٹیٹروں تک پہنچنا ناگزیر ہو ہی جائے تو ذمہ دار نچلہ ترین "ماتحت سویلین عملہ” ہو گا۔
۵۔ رپورٹ تضادات سے بھرپور ہے۔ اور ظاہر ہے کہ جب آپ کو بااثر کرتا دھرتا افراد کو بچانا ہے، تو کہانی میں تضاد تو پیدا ہوگا۔
اور یہی تضاد اس رپورٹ میں جا بجا واضح ہے۔ اور ایک قاری حبیب جالب کے الفاظ میں صاحب رپورٹ اہل کمیشن کے بارے میں یہ تاثرلئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ:
قوم کی بہتری کا چھوڑ خیال
فکر تعمیر ملک دل سے نکال
تیرا پرچم ہے تیرا دست سوال
بے ضمیری کا اور کیا ہو مآل
اب قلم سے ازار بند ہی ڈال