پاکستان24 متفرق خبریں

جذباتی دلائل کے دوران سپریم کورٹ کے جسٹس فائز سے تین سوال

اپریل 20, 2021 7 min

جذباتی دلائل کے دوران سپریم کورٹ کے جسٹس فائز سے تین سوال

Reading Time: 7 minutes

پاکستان کی سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صدارتی ریفرنس نظر ثانی کیس میں جذباتی ماحول دیکھنےکو ملا ۔جہاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور اُن کی اہلیہ بار بار دلائل کے دوران جذباتی ہوتے رہے وہیں بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے بھی جذباتی ہو کر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور اہلیہ سے نجی ملاقاتوں کا تذکرہ بھی کر دیا ۔

رپورٹ: جہانزیب عباسی

سپریم کورٹ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں د س رکنی بنچ کے سامنے سرینہ عیسیٰ دلائل کے دوران بار بار جذباتی ہوتی رہیں،ایک مرتبہ تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی آواز اُس وقت بھر آئی جب انھوں نے غیر معمولی بلند آواز میں کہا پاکستان بنانے والوں میں میرے والد شامل تھے، اگر میں جھوٹا ہوں تو اللہ مجھے غرق کرے، میں جج کی کرسی کے لیے نہیں لڑ رہا، عاصم سلیم باجوہ کی بارہ کمپنیاں ہیں لیکن اس سے کوئی نہیں پوچھ رہا؟۔

جسٹس عمر عطا بندیال نےجسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا میں روزانہ اللہ سے دعا کرتا ہوں اللہ مجھ سے کسی کی دوستی یا دشمنی میں غلط فیصلہ نہ کرائے، اللہ مجھے درست فیصلہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے ، آپ جذباتی ہو سکتے ہیں تو کیا ہم جذباتی نہیں ہوسکتے، آپ نے ہمیں اتنی باتیں سنائی ہیں ۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا میں نے آپ کو باتیں نہیں سنائیں بلکہ حکومت کو سنائی ہیں، میں معافی چاہتا ہوں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کل سیاسی باتیں کمرہ عدالت سے باہر جاکر کریں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جواب دیا کہ میں سیاست دان نہیں ہوں جو باہر جاکر بیان بازی کروں، اگر کوئی سوال پوچھنا ہے تو پوچھ لیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ میری آپ سے باہر ایک ملاقات ہوئی، اس ملاقات میں میں نے آپ سے کیا کہا تھا لیکن میں وہ بات نہیں بتائوں گا ۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کمرہ عدالت سے باہر کی باتیں یہاں نہ کریں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا بیگم صاحبہ سے پوچھیں میری ان سے ایک ملاقات ہوئی، اس ملاقات میں میں نے بیگم صاحبہ سے کیا کہا۔

سپریم کورٹ نے مستقبل کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے تین سوال پوچھ لیے۔ پہلا سوال یہ پوچھا گیا ہے کہ کیا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنی اہلیہ کے بنک اکاؤنٹ سے مکمل لاتعلق ہیں؟ دوسرے سوال میں پوچھا گیا بیرون ملک جائیدادیں خریدنے کیلئے جو رقم باہر بھیجی گئی کیا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا اس سے کوئی قانونی تعلق نہیں؟

سپریم کورٹ نے تیسرے سوال میں پوچھا کیا جائیداد کی خریداری کیلئے جو اخراجات کیے گئے ان کا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے کوئی تعلق نہیں؟ ۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینہ عیسیٰ نے دلائل میں کہامیرے بنک اور ٹیکس ریکارڈ کا جائزہ میرا شوہر تک نہیں لے سکتا،ایف بی آر کی رپورٹ میری اجازت کے بغیر سپریم کورٹ بھی نہیں دیکھ سکتی،میری اجازت کے بغیر میرا ٹیکس ریکارڈ سپریم جوڈیشل کونسل بھی نہیں دیکھ سکتی،ٹیکس ریکارڈ میرا اور ایف بی آر کا باہمی معاملہ ہے،آدھے سچ پر مبنی رپورٹ کا کچھ حصہ میڈیا کو لیک کیا گیا،فواد چوہدری اور شہزاد اکبر جیسے لوگ ایک لائن پکڑ کر ڈھنڈھورا پیٹں گے،گزشتہ دو برس کے دوران ہزاروں بار مرچکی ہوں،میرے خاوند ایف بی آر کے سامنے ہیں نہ میں سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے ہوں،سپریم کورٹ سے اپنا حکم واپس لینے کی استدعا کرتی ہوں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا یہ ممکن نہیں کہ ججز دستاویزت کا جائزہ سائل کی مرضی پر لیں،گزشتہ روز آپ نے اور جسٹس قاضی فائز عیسی نے ایف بی آر کی رپورٹ مانگی تھی۔جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ مسز عیسی آپ سے درخواست ہے کہ کم سے کم وقت میں دلائل مکمل کریں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہاصرف یہ بتا دیں کہ سپریم کورٹ کے 20 جون 2020 کے فیصلے میں کیا غلطی تھی۔

سرینہ عیسیٰ نے کہا کہ کل بینچ نے ایف بی آر کی سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجی گئی خفیہ رپورٹ ہمیں دینے کی ہدایت کی، آرڈر کے باوجود خفیہ رپورٹ ہمیں موصول نہیں ہوئی، میرے ٹیکس معاملات ذاتی ہیں، میرے شوہر سے بھی خفیہ ہیں، میرے ذاتی ٹیکس معاملات پر مبنی ایف بی آر کی رپورٹ تمام ججز نے پڑھی، ایف بی آر کی میرے خفیہ ٹیکس معاملات کی رپورٹ میرے علم میں لائے بغیر جمع کرانا غیر قانونی ہے، دو سال سے میری زندگی ٹاک شوز میں زیر بحث ہے، ایک اخبار نے ایف بی آر رپورٹ کے آدھے سچ شائع کیے جو ان کو غیر قانونی طور پر دیے گئے،میرے شوہر کو ایف بی آر نے طلب نہیں کیا نہ مجھے سپریم جوڈیشل کونسل نے بلایا،ایف بی آر چیئرمین کا رپورٹ پیش کرنا غیر قانونی ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ فریق کو درخواست کرنے پرعدالت میں جمع کرائی گئی خفیہ رپورٹ نہیں دی جا سکتی۔

سرینا عیسیٰ نے کہا میں نے رپورٹ کے لیے درخواست نہیں کی عدالت نے خود دینے کا حکم دیا، سپریم کورٹ کا میرے خلاف معاملہ ایف بی آر بھیجنے کا حکم درست نہیں تھا،میں نے 18 جون 2020 کو اپنی ٹیکس اور پیسے ٹرانسفر کرنے کی تمام تفصیلات عدالت میں جمع کرائیں، عدالت نے فیصلہ کرتے ہوئے میری دستاویزات کا درست جائزہ نہیں لیا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے سرینہ عیسیٰ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا آپ کی کراچی سکول کی آمدن اور کلفٹن کراچی سے کرایے کے حصول کی رقم کو ایف بی آر نے نظر انداز کیا، آپ مرکزی مقدمے میں فریق نہیں تھیں، آپ نے خود پیش ہوکر کہا میں عدالتی کارروائی میں شامل ہونا چاہتی ہوں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا یہ بات حقائق کے منافی ہے،فروغ نسیم عدالت میں آکر جادوئی باتیں کرتے تھے، اب فروغ نسیم عدالت میں نہیں آتے، فروغ نسیم سچ کے سامنے کھڑا نہیں ہو سکتا، فروغ نسیم کبھی سلائی مشینوں اور کبھی ادھر اُدھر کی باتیں کرتا تھا۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا آپ عدالتی کارروائی میں مداخلت نہ کریں، آپ اپنی نشست پر جاکر بیٹھ جائیں،آپ پہلی مرتبہ دلائل دے رہی ہیں اس لیے بنچ کی طرف سے سوال پوچھا جا رہا ہے۔سرینہ عیسیٰ نے کہا میں بنچ کے سوالات لکھ لیتی ہوں پھر آخر میں جواب دوں گی۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے سرینہ عیسیٰ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا آپ نے بیرون ملک جعلی اکاؤنٹ نہیں کھولا، آپ نے ٹرسٹی اکاؤنٹ کا سہارا بھی نہیں لیا، آپ نے تمام رقوم کی منتقلی بنک کے زریعے کی، پاکستان سے جو رقم باہر بھیجی گئی وہ خریدی گئی جائدادوں کی مالیت سے مطابقت رکھتی ہے، آپ نے وضاحت پانچ اگست دو ہزار نو کے بعد سے دینی ہے، پانچ اگست دو ہزار نو کو آپ کے شوہر چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ بنے تھے، دو ہزار نو کے بعد دو جائیدادوں پر سوالیہ نشان ہے، دو ہزار نو سے پہلے آپ کے شوہر پبلک آفس ہولڈر نہیں تھے، ہمیں یہ بھی علم ہے آپ مالی طور پر پہلے سے مستحکم ہیں۔سرینہ عیسیٰ نے کہا مجھ پر اللہ کا فضل ہے۔جسٹس مقبول باقر نے کہا آپ پر اعتماد انداز میں دلائل دیں، ہم فیصلے میں غیر قانونی اور غیر آئینی نکات کا جائزہ لے رہے ہیں۔سرینہ عیسیٰ نے کہا میرے پاس کوئی عوامی عہدہ نہیں اور نہ میں جواب دہ ہوں،مجھ پر آرٹیکل 62 کا اطلاق نہیں ہوتا،اس کا اطلاق عمران خان پر ہوتا ہے،وہ عوامی شخص ہے اور وہ عوام کو جوابدہ ہے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا آپ ازخود نوٹس اختیار سے متعلق بتائیں۔

سرینہ عیسیٰ نے دلائل میں کہا ازخود نوٹس اختیار سپریم کورٹ کا ہے،عدالت نے ایف ابی آر کو ازخود نوٹس کے تحت ایف بی آر کو معاملہ بھجا،تبھی تو ٹیکس کمشنر ذوالفقار نے اپنی حدود سے تجاوز کیا،ازخود نوٹس بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ہوتا ہے نہ کہ ان حقوق کی پامالی کے لیے،اس معا ملے میں عدالتی ازخود نوٹس سے بنیادی انسانی حقوق پامال ہو،عدالتی تاریخ کی یہ واحد مثال ہے کہ کسی ایک شخص کے خلاف ازخود نوٹس لیا گیا،ازخود نوٹس عوامی مفاد کے لیے لیے جاتے ہیں نہ کہ کسی شخص کے حقوق کو پامال کرنے کے لئے،صرف ایک شخص کو سنگل آؤٹ کرکے اسکے خلاف ازخود نوٹس کے دائرہ اختیار کا استعمال درست نہیں۔

سپریم کورٹ نے مستقبل کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے تین سوال پوچھ لیے۔پہلا سوال یہ پوچھا گیا ہے کہ کیا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنی اہلیہ کے بنک اکاؤنٹ سے مکمل لاتعلق ہیں؟ ؟؟دوسرے سوال میں پوچھا گیا بیرون ملک جائیدادیں خریدنے کیلئے جو رقم باہر بھیجی گئی کیا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا اس سے کوئی قانونی تعلق نہیں؟ ،،سپریم کورٹ نے تیسرے سوال میں پوچھا کیا جائیداد کی خریداری کیلئے جو اخراجات کیے گئے انکا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے کوئی تعلق نہیں؟ ۔

کیس کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جذباتی انداز میں دلائل دیتے ہوئے کہا اگر میں جھوٹا ہوں تو اللہ مجھے غرق کرے،میں جج کی کرسی کیلئے نہیں لڑ رہا، عاصم سلیم باجوہ کی بارہ کمپنیاں ہیں لیکن اس سے کوئی نہیں پوچھ رہا، انور منصور اور فروغ نسیم دونوں جھوٹے ہیں، میں آج بھی اپنے ٹیکس گوشواروں میں اہلیہ اور بچوں کے اثاثے ظاہر نہیں کر رہا، اثاثے ظاہر نہ کرنا اگر جرم ہے تو میں آج بھی یہ جرم کر رہا ہوں، ہمارے خلاف تین ازخود نوٹس لیے گئے، پہلا ازخود نوٹس میری بیوی اور بچوں کے خلاف ہوا،دوسرا ازخود نوٹس معاملہ ایف بی آر کو بھیج کر لیا گیا، تیسرا ازخود نوٹس معاملہ جوڈیشل کونسل کو بھیج کر لیا گیا،برطانیہ نے از خود نوٹس کا لفظ ہی ختم کر دیا، ہم آج بھی غلامانہ زہن کے ساتھ ازخود نوٹس کے لفظ کا استعمال کر رہے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دلائل میں مزید کہا جہانزیب خان اور نوشین امجد شہزاد اکبر کا حکم نہ ماننے پر چیئرمین ایف بی آر کے عہدے سے ہٹایا گیا، دونوں چیئرمینز کو ایف بی آر سے ہٹانا بدنیتی تھا۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا آپ جذباتی نہ ہوں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا میں اپنے دین اور سپریم کورٹ کے وقار کیلئے جذباتی ہونگا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا اگر آپ نے ریکارڈ کے مطابق بات نہیں کرنی تو نہ کریں، سپریم کورٹ نے ریکارڈ کی روشنی میں فیصلہ دینا ہے،آپ نے کہا آپ کی اہلیہ خودمختار ہیں، بیرون ملک جائیدادیں انھیں سے پوچھیں، آپ کی بات قبول کرنے کیلئے عدالت کو راستہ چاہیے، آپ کی اہلیہ آج آپ کی وجہ سے عدالت میں موجود ہیں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کیا ہر شخص کو جج بننے سے قبل اپنی اہلیہ کو بتانا چاہیے کہ عذاب نازل ہو سکتا ہے کیا تم تیار ہو، میرے والد پاکستان بنانے والوں میں شامل تھے ۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے جس طرح آپ اللہ کو جواب دہ ہیں اسی طرح ہم نے بھی اللہ کو جواب دینا ہے،میں روزانہ قرآن کی آیات پڑھتا ہوں، ان آیات کا مفہوم یہ ہے کہ اے اللہ مجھے درست فیصلہ کرنے کی توفیق عطا فرما، میں اللہ سے روزانہ دعا کرتا ہوں اللہ مجھ سے کسی کی دوستی یا دشمنی میں غلط فیصلہ نہ کرائے، آپ نے ہمیں بہت باتیں سنائی ہیں، آپ جذباتی ہو سکتے ہیں تو کیا ہم جذباتی نہیں ہوسکتے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا میں نے آپ کو باتیں نہیں سنائیں بلکہ حکومت کو سنائی ہیں۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا سیاسی باتیں کمرہ عدالت سے باہر جاکر کریں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جواب دیا میں سیاست دان نہیں ہوں جو باہر جاکر بیان بازی کروں، اگر کوئی سوال پوچھنا ہے تو پوچھ لیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا آپ سے باہر میری ایک ملاقات ہوئی، اس ملاقات میں میں نے آپ سے کیا کہا تھا لیکن میں وہ بات نہیں بتائوں گا ۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کمرہ عدالت سے باہر کی باتیں یہاں نہ کریں۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا بیگم صاحبہ سے پوچھیں میری ان سے ایک ملاقات ہوئی، اس ملاقات میں میں نے بیگم صاحبہ سے کیا کہا۔کیس کی سماعت کل دوبارہ ہوگی۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے