جسٹس فائز عیسیٰ کیس: سرکاری وکیل کے دلائل اور بینچ کے سربراہ کے ریمارکس
Reading Time: 2 minutesپاکستان کی سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی کیس میں وفاقی حکومت کے وکیل کو پیر تک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔
جمعے کو ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی معلومات وجود رکھتی ہوں۔
رپورٹ: جہانزیب عباسی
بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ حقائق حقائق رہتے ہیں انہیں ختم نہیں کیا جا سکتا، حقائق کو ختم کرنے کے لیے عدالتی حکمنامہ ضروری ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال کے مطابق یہ بات ذہن میں رکھیں کہ ایف بی آر رپورٹ ہمارے لیے ضروری معلومات نہیں ہو سکتی، جن حقائق پر ایف بی آر رپورٹ بنائی گئی جوڈیشل کونسل ان حقائق کا جائزہ لے سکتی ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ یہ اپنی نوعیت کا بڑا مختلف نوعیت کا کیس ہے، گیارہ سال پہلے بھی اسی نوعیت کا ایک کیس سپریم کورٹ میں آیا تھا۔
جسٹس عمر عطا بندیال کے مطابق اس کیس میں بھی بڑے تحمل کے ساتھ دلائل ہوتے رہے، ذہن میں رکھیں ہم نے انصاف پر مبنی فیصلہ کرنا ہے، ہم ایف بی آر رپورٹ کا جائزہ نہیں لے رہے۔
جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل آئینی ادارہ ہے، سپریم جوڈیشل کونسل ایف بی آر رپورٹ کا ازخود نوٹس اختیار کے تحت جائزہ لے سکتی ہے۔
سرکاری وکیل نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل ایک مستقل باڈی ہے۔ یہ کہنا درست نہیں کہ ریفرنس آنے پر ہی جوڈیشل کونسل تشکیل پاتی ہے، جوڈیشل کونسل غیر فعال ہو تو اس کا ازخود نوٹس کا اختیار ختم ہو جائے گا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ عدالت نے وفاقی حکومت کا ریفرنس کالعدم قرار دیا تھا،ایف بی آر کو کیس عدالت نے حکومتی درخواست پر نہیں بھجوایا تھا، حکومت کا کیس کالعدم ہو چکا تو حکومتی وکیل کو سننا کیوں ضروری ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ جن کا کیس ایف بی آر گیا ان کا حق ہے وہ چیلنج کرتے۔
وکیل نے کہا کہ پانامہ کیس میں بھی عدالت نے مخصوص مدت میں تحقیقات مکمل کرنے کا حکم دیا تھا، اداروں کو مخصوص مدت میں اقدامات کی ہدایت سپریم کورٹ کرتی رہی ہے، سرینا عیسٰی کا کیس ایف بی آر بھجوانے کی وجہ تنازع کا حل تھا۔
بینچ کے سربراہ نے کہا کہ کیا یہ لکھنا ضروری ہے کہ فیصلہ 187 کے تحت دیا جارہا ہے؟
سرکاری وکیل کے مطابق عدالت کا اختیار ہو تو فیصلے میں آرٹیکل کا ذکر ضروری نہیں ہوتا۔
سرکاری وکیل کے دلائل کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی بات کرنے کی کوشش پر جسٹس منظور ملک نے کہا کہ قاضی صاحب عامر رحمان شریف آدمی ہے اسے بولنے دیں۔
جسٹس منظور ملک نے قاضی فائز سے کہا کہ آپ تحمل کا مظاہرہ کریں اور وکیل کو دلائل دینے دیں۔
جسٹس قاضی امین نے کہا کہ ہم سب کھلے دل اور ذہن کے کیساتھ بیھٹے ہوئے ہیں۔
سرکاری وکیل نے کہا کہ درخواست گزار بڑا آدمی ہے اس لیے مداخلت کی جارہی ہے، بار بار مداخلت سے میرے لئے دلائل دینا مشکل ہورہا ہے۔
جسٹس باقر نے کہا کہ آپ بہترین دلائل دے رہے ہیں جاری رکھیں۔
قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں کوئی بڑا آدمی نہیں ہوں، مجھے بار بار رگڑا لگایا جا رہا ہے۔
جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ قاضی صاحب مہربانی کریں۔
جسٹس منظور احمد ملک نے کہا کہ قاضی صاحب خدا کا واسطہ ہے چپ کر جائیں۔