فون تو سب کے ٹیپ ہوتے ہیں: جسٹس عمر عطا بندیال
Reading Time: 2 minutesسپریم کورٹ میں شہری کی موبائل سم کے غلط استعمال پر ایف آئی اے کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی. درخواست گذار نے کہاکہ پانچ سال سے ان کا فون ٹیپ ہو رہا ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے فون تو سب سے ٹیپ ہوتے ہیں،آپ کو کیا پتا یہاں کس کس کے فون ٹیپ ہو رہے ہیں؟ عدالت نے ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے درخواست خارج کردی۔
درخواست گذار نے موبائل سم کے غلط استعمال کی عدم تحقیقات پر ایف آئی اے کیخلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
سپریم کورٹ میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس امین الدین خان پر مشتمل دو رکنی عدالتی بینچ نے شہری عدنان سومرو کی درخواست پر سماعت کی۔عدالت نے درخواست کمزور قانونی نکات کے سبب خارج کردی۔
درخواست گذار عدنان سومرو نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ میرے نام سے کسی نے موبائل سم نکلوا کر اُسکا غلط استعمال کیا،ایف آئی اے اور پی ٹی اے سے رجوع کیا لیکن موثر تحقیقات نہیں کی گئیں،موبائل سم دو ہزار اٹھارہ میں بلاک کردی گئی تھی۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کسی کے نام کی موبائل سم کا غلط استعمال کرنا جرم ہے،کیا آپ کا کسی سے کوئی ذاتی تنازعہ ہے؟۔درخواست گذار نے جواب دیا میں پی ایچ ڈی کے لیے ملک سے باہر جانا چاہتا ہوں 5 سال سے میرا فون ٹیپ ہو رہا ہے، تنگ کیا جا رہا ہے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے فون تو سب کے ٹیپ ہوتے ہیں، آپ صحافی ہوتے تو عدالت آپ کو تحفظ دینے کی پابند ہوتی، صحافیوں کے پاس حساس معلومات ہوتی ہیں، ان کو ہراساں کیے جانے پر حفاظت دی جاتی ہے،آپ کو کیا پتا یہاں کس کس کے فون ٹیپ ہو رہے ہیں۔
درخواست گذار نے کہا میں نے سرکاری اداروں میں نوکری کی کوشش کی، جو فون ٹیپ کر رہے ہیں وہ کہیں بھی مجھے کام کرنے نہیں دے رہے، ہر جگہ کہا جاتا ہے یہ سندھی ہے اسے نوکری نہیں دینی۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا سرکار کی نوکری میں کوئی فائدہ نہیں ہے، ہم سالوں تک وکیل رہے اور نجی پریکٹس کے بعد جج بنے، سائے تلاش کرنے سے بہتر ہے محنت کر لی جائے،اس کیس میں کوئی قانونی نقطہ نہیں ہے۔سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے درخواست خارج کردی۔