اب ملک میں کسی پرتشدد رویے یا انتہاپسندی کی گنجائش نہیں: آرمی چیف
Reading Time: 2 minutesپاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ افغانستان کی صورتحال امن کا ایک موقع بھی ہو سکتی ہے اور خطرے کی گھنٹی بھی۔
جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو) راولپنڈی میں یوم دفاع پاکستان کی مرکزی تقریب سے خطاب میں آرمی چیف کا کہنا تھا ’ہم جنگ کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں افغان عوام کے دکھ درد کو محسوس کر سکتے ہیں اور ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘
’ہم توقع کرتے ہیں کہ افغانستان میں ایک مستحکم اور تمام افغانوں کی نمائندہ حکومت قائم ہو گی۔‘
جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ پاکستان اور انڈیا کے بیچ مسئلہ کشمیر کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ ’ہم کشمیری عوام کے جذبہ حریت اور خاص طور پر سید علی گیلانی کی طویل اور عظیم جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ ہم 5 اگست 2019 کے کشمیر سے متعلق یک طرفہ اقدام کو مسترد کرتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ افواج پاکستان نے ہر موقع پر ثابت کیا ہے کہ ہم اپنے وطن کی حفاظت کرنا جانتے ہیں اور اس کے لیے ہر قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ’ہم اپنے شہیدوں کو کبھی نہیں بھولے، ان کے ورثا کی دیکھ بھال ہماری ذمہ داری ہے۔‘
جنرل باجوہ نے کہا کہ ’افواج پاکستان کسی بھی قسم کی اندرونی اور بیرونی جنگ لڑنے کے لیے ہر طرح سے تیار ہے۔ آج ہمارا شمار دنیا کی بہترین افواج میں ہوتا ہے۔‘ جنرل باجوہ کا کہنا تھا کہ ہم نے دفاعی قوت میں خودانحصاری پیدا کر کے ملک کے دفاع کو مضبوط بنایا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ فوج کی کامیابی عوام کی حمایت پر منحصر ہے۔ ’قوم کی حمایت کے بغیر کوئی بھی فوج ریت کی دیوار ثابت ہوتی ہے جیسا کہ پڑوس میں ہوا۔‘
ان کے مطابق ’ہمارے دشمن بھی غیر روایتی ہتھکنڈوں کےذریعے اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ کچھ لوگ ملک دشمن عناصر کے لیے استعمال ہو رہے ہیں لیکن ہم منفی عزائم کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔‘
آرمی چیف نے کہا کہ ’اب ملک میں کسی پرتشدد رویے یا انتہاپسندی کی گنجائش نہیں ہو گی۔ اب ریاست کے علاوہ کسی کو بھی طاقت کے استعمال اور اسلحے کی نمائش کی اجازت نہیں ہو گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ تنقید برائے تنقید جیسے منفی رویوں کی حوصلہ شکنی کرنی ہو گی۔
جنرل باجوہ نے سابق امریکی صدر جان ایف کنیڈی کا قول نقل کیا کہ ’یہ مت سوچیے کہ ملک آپ کے لیے کیا کر رہا ہے بلکہ یہ سوچیے آپ ملک کے لیے کیا کر رہے ہیں۔‘
تقریب میں صدر مملکت عارف علوی، چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی، قائد حزب اختلاف شہباز شریف اور فوجی اور سول حکام شریک ہوئے۔