مہنگائی کو سمجھنا نہایت آسان ہو گیا
Reading Time: 2 minutesجو لوگ شوکت ترین اور رضا باقر کا موقف سمجھنا چاہتے ہیں ان کی آسانی کے لئے عرض ہے کہ ہر دو کا موقف یہ ہے کہ
جب شرح ترقی یعنی جی ڈی پی پانچ فیصد کے قریب جاتی ہے تو لوگوں کے پاس دولت آتی ہے اور اس دولت سے وہ ہنڈا موٹر سائیکل خریدنے نکل جاتے ہیں، جب اٹلس ہونڈا کو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ طلب زیادہ ہے اور رسد کم ہے تو وہ اپنی قیمتیں بڑھا دیتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اپنے پرزہ جات کی امپورٹس کرتے ہیں تو اس سے دوہرا نقصان ہوتا ہے، ایک یہ کہ امپورٹ بل بڑھتا ہے اور دوسرا مہنگائی ہوجاتی ہے۔
احتیاطاً پوچھ رہا ہوں کہ کیا یہی فارمولہ ہم اسحاق ڈار پر بھی لاگو کر سکتے ہیں؟ یعنی ان کے دور میں جی ڈی پی تو پانچ فیصد سے زیادہ تھی لیکن افراط زر بہت کم تھی، گویا یہ فارمولہ صرف موجودہ یوتھ پر ہی لاگو ہوگا؟
اب گور نر سٹیٹ بینک فرما رہے ہیں کہ ایک فیصد شرح سود بڑھانے سے انڈسٹری کو مہنگے داموں پیسہ ملے گا اس لئے وہ اپنی پروڈکشن کم کریں گے گویا اس سے بھی رسد کم ہوگی۔
آپ یقین کریں مجھے بعض اوقات یہ لگتا ہے کہ میں مسٹر بین کی فلم دیکھ رہا ہوں جس میں ہر لمحہ ایک نئی حماقت آپ کی منتظر ہے۔
آپ کو بھی شاید قباچہ یاد آ گیا ہو۔
بنیادی بات اتنی ہے کہ پاکستان میں اس وقت ایک بھی ریگولیٹری ادارہ اپنا کام ٹھیک نہیں کر رہا اور آدھی سے زیادہ مہنگائی کی وجہ بیڈ گورننس ہے۔
سیمنٹ کا ایک بھی خام مال امپورٹ نہیں ہوتا لیکن اس کی قیمت سات سو پچاس روپے ہوگئی تو کیا کسی حکومتی ادارے نے اس کا نوٹس لیا؟
تمام آٹو موبائل سیکٹر نے ایک ہی روز اپنی گاڑیوں کی قیمتیں بڑھائیں تو کیا یہ اتفاق تھا؟
ایل این جی بروقت نہ خریدی گئی تو اس کا انٹرنیشنل مارکیٹ سے کیا لینا دینا؟
ڈالر کو روزانہ کے حساب سے کابل جانے دیا گیا تو اس کا کیا تعلق انٹرنیشنل کموڈٹی پرائسز سے؟
حکومتی اخراجات میں کتنا اضافہ ہوا؟ اس کی وجہ اپوزیشن کی کرپشن ہے؟
بقول فخر امام صاحب کے گندم کو زمیں کھا گئی یا آسمان نگل گیا والا معاملہ ہوا تو اس میں کس کا دوش ہے؟