وکلا رہنما خاتون جج کے سپریم کورٹ میں تقرر کے خلاف کیوں؟
Reading Time: 2 minutesپاکستان کی اعلیٰ عدلیہ میں ججز کے تقرر کی سفارش کرنے والے کمیشن کے سربراہ چیف جسٹس گلزار احمد نے لاہور ہائی کورٹ کی جج جسٹس عائشہ ملک کو سپریم کورٹ لانے کی تجویز دی ہے۔
تین ماہ میں یہ تجویز دوسری بار دی گئی ہے جس کو وکلا تنظیموں کے رہنماؤں نے مسترد کرتے ہوئے اس کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا ہے۔
جسٹس عائشہ ملک کے تقرر کی تجویز پر سفارش بڑھانے کے لیے جوڈیشل کمیشن کا اجلاس 5 جنوری کو طلب کیا گیا ہے۔
اجلاس میں اگر تجویز کو منظور کیا جاتا ہے تو حتمی فیصلے کے لیے معاملہ پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی کو بھیجا جائے گا۔
جوڈیشل کمیشن کے اجلاس سے دو دن قبل پاکستان بار کونسل نے تمام وکلا تنظیموں کی میٹنگ 3 جنوری کو اسلام آباد میں طلب کی ہے۔
جمعرات کو پاکستان بار کونسل کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’ایک غیر معمولی اجلاس کی کال دی جارہی ہے کیونکہ چیف جسٹس نے لاہور ہائی کورٹ کی ایک جونیئر جج کو سپریم کورٹ کی جج بنانے کا فیصلہ کیا ہے جو کہ سنیارٹی لسٹ میں چوتھے نمبر پر ہیں۔‘
اعلامیے میں جسٹس عائشہ ملک کا نام لیے بغیر یہ کہا گیا ہے کہ ’اس تعیناتی سے نہ صرف تین جج سپر سیڈ ہو جائیں گے بلکہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ بھی اس سے متاثر ہوں گے۔‘
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ چاروں صوبائی بار کونسلز اور چاروں صوبائی بار ایسوسی ایشنز کے صدور 3 جنوری کے اس ہنگامی اجلاس میں شریک ہوں تاکہ اگلے لائحہ عمل کا اعلان کیا جا سکے۔
خیال رہے کہ رواں سال نو ستمبر کو بھی جسٹس عائشہ ملک کا نام سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے پیش ہوا تاہم ان کی سپریم کورٹ کے جج کے طور پر تعیناتی نہیں ہو سکی تھی۔