زمین پر قبضے کے لیے مذہب کا استعمال، کراچی کی مسجد گرانے کا حکم برقرار
Reading Time: 2 minutesپاکستان کی سپریم کورٹ نے کراچی میں طارق روڈ پر مبینہ طور پر پارک کی زمین پر بنائی گئی ایک مسجد کو مسمار کرنے کا حکم واپس لینے کی استدعا مسترد کر دی ہے.
منگل کو اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے حکومت کی جانب سے مسجد کی تعمیر کے لیے دوسری جگہ دینے تک مسجد نہ گرانے کی استدعا کی تو چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ پارک سے تجاوزات ختم کرنے کا فیصلہ واپس نہیں ہوگا۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ’سندھ حکومت چاہے تو مسجد کے لیے متبادل زمین دے۔ اٹارنی جنرل صاحب، یہ پارک تو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔‘
جسٹس قاضی امین نے کہا کہ ’زمینوں کے قبضے میں مذہب کا استعمال ہو رہا ہے۔ آپ حکومت کے نمائندے ہیں۔ چاہتے ہیں آسمان گر جائے حکومت نہ گرے۔ عبادت گاہ اور اقامت گاہ میں فرق ہوتا ہے۔‘
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت سے استدعا کرتے ہوئے کہا کہ ’طارق روڈ پر قائم مدینہ مسجد کو مسمار کرنے کے 28 دسمبر کے حکم پر نظر ثانی کرے۔‘
اٹارنی جنرل کے مطابق ’عدالت کے حکم کی وجہ سے مذہبی تناؤ جنم لے رہا ہے۔ مسجد گرانے کے حکم سے بہت سے سوالات اٹھ رہے ہیں۔ یہ مسئلہ کمرشل لینڈ کا نہیں۔ عدالت میں تمام حقائق پیش نہیں کیے گئے۔‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’جانتا ہوں یہ ریاست اور صوبائی حکومت کا فرض ہے کہ مسجد کے لیے زمین دے۔ تاہم عدالت پہلے سندھ حکومت سے مدینہ مسجد پر تفصیلی رپورٹ لے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ صرف اتنا کر سکتے ہیں کہ جب تک مسجد کی نئی جگہ نہ ملے تب تک اس کو نہ گرانے کا حکم دیں۔ یہ تو بہت گڑ بڑ ہو گئی ہے۔ ہم اپنا آرڈر واپس نہیں لے سکتے۔ اس طرح کیا ہم اپنے سارے آرڈر واپس لے لیں؟ ہم نے اپنے فیصلے واپس لینے شروع کیے تو اس سب کارروائی کا کیا فائدہ؟‘
جسٹس قاضی امین نے کہا کہ تجاوزات پر مسجد کی تعمیر غیر مذہبی اقدام ہے۔ کیا قبضے کی زمین پر قائم مسجد میں نماز ہو سکتی ہے۔ اسلام اس اقدام کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ مسجد بنانی ہے تو اپنی جیب سے بنائیں۔‘
عدالت نے سندھ حکومت سے تین ہفتوں میں رپورٹ طلب کرتے ہوئے تجاوزات کے کیس کی سماعت 13 جنوری تک ملتوی کردی۔